گلزار جاوید(راولپنڈی)
سوال : بلوچستان کے دور دراز علاقے دُکی میں آپ کی پیدائش اور بزرگوں کے قیام کا پس منظر کیا ہے؟
گوپی چند نارنگ : میں بلوچستان میں دُکی ضلع لورالائی میں 11 فروری 1931 کو پیدا ہوا۔ میری دھدھیال اور ننھیال لیّہ ضلع مظفرگڑھ میں تھی۔ لیکن والد صاحب بلوچستان کے Domicileتھے اور Revenue Serviceمیں ہونے کی وجہ سے افسر خزانہ تھے۔ ہر تین سال کے بعد ان کا تبادلہ کسی اور تحصیل میں ہوجاتا تھا۔ انتظامیہ میں تحصیل دار کے بعد سب سے بڑی حیثیت ان کی تھی۔ ہمارا گھر Political Agentکے باغیچے سے متصل تھا۔ انگریز افسر تو گاہے ماہے آتا تھا، پورا باغیچہ میرے ہمجولیوں کے تصرف میں رہتا تھا۔
سوال : کچھ معلومات بچپن اور گرد و پیش کی اگر حافظے میں محفوظ ہوں؟
گوپی چند نارنگ : دُکی کے بعد والد صاحب کا تبادلہ موسیٰ خیل میں ہوا اور تعلیم کی بسم اللہ بھی یہیں کے پرائمری اسکول میں ہوئی۔ علاقے کی زبان تو بلوچی اور پشتو تھی لیکن اسکول کا آغاز اردو قاعدے سے ہوا۔ شروع میں میں اسکول سے بہت ڈرتا تھا اور کبھی کبھی جاتا بھی نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے ان طالب علموں کو جو اسکول سے بھاگ جایا کرتے تھے اسکول کے دیگر طلبہ زبردستی پکڑ کر لے جایا کرتے تھے۔ سالانہ امتحان سے بھی میں خوفزدہ تھا چنانچہ جب سبق پڑھنے کو کہا گیا تو میں نے قاعدہ بند کرکے ڈرتے ڈرتے زبانی سنانا شروع کردیا۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب استاد نے کہا بس بس تم نہ صرف پاس بلکہ اوّل۔ میرے بڑے بھائی میرے ساتھ تھے۔ وہ یہ واقعہ سب کو بتاتے پھرے۔
سوال : اردو زبان و ادب سے بزرگوں کا تعلق کس نوعیت کا تھا؟
گوپی چند نارنگ : میری والدہ اور دادی کی مادری زبان سرائیکی تھی۔ والد صاحب سرائیکی بھی بولتے تھے اور بلوچی و پشتو بھی۔ دفتری انتظامیہ تو انگریزی میں تھا لیکن والد صاحب فارسی اور سنسکرت بھی جانتے تھے اور اردو بھی بولتے تھے۔ اردو اور فارسی کے اشعار سب سے پہلے میں نے ان کی زبان سے سنے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں والد صاحب اصل سنسکرت سے پڑھ کر سناتے تھے۔ سوامی رام تیرتھ کی غزلیات اور بہت سے اردو شعرا کا کلام انھیں ازبر تھا۔
سوال : تقسیم ہند کے بعد اردو زبان سے ’تعصب و بیگانگی کی فضا میں‘ کس جذبہ کے تحت اردو زبان سے اپنا تعلق برقرار رکھ سکے؟
گوپی چند نارنگ : بیشک تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کے حوالے سے بیگانگی کو راہ ملی، لیکن جب ساری فضا میں مذہبی تعصب کا بارود پھیل جائے تو کوئی بھی صورتِ حال سادہ نہیں ہوتی۔ اردو سے بیگانگی اس بڑے سیاسی عمل کا حصہ تھی جس کو روز بروز مذہبی رنگ دیا جانے لگا۔ ملکوں کا بٹوارہ اگر برحق تھا تو زبانوں کا بٹوارہ اتنا ہی غلط اور ناحق تھا۔ اگر کوئی جذبہ آپ کے ذہن و شعور کا حصہ ہو اور آپ کی لگن کھری اور سچی ہو تو آزمائش ایسے ہی حالات میں ہوتی ہے۔ انٹرمیڈیٹ میں نے اجمیر بورڈ سے کیا، بی اے پنجاب یونیورسٹی سے۔ پھر 1952 میں جب میں لیبر انسپکٹر کے طور پر کام کر رہا تھا، میں نے دہلی کالج میں ایم․اے․اردو میں داخلہ لے لیا۔ ایم․اے․کی کلاس میں دہلی یونیورسٹی میں میں اکیلا طالب علم تھا۔ 1954 میں ایم․اے․فرسٹ کلاس کرنے کے بعد میں نے پی․ایچ․ڈی․میں داخلہ لے لیا۔ وظیفہ بھی مل گیا اور یوں بتدریج اردو سے رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔
سوال : بقول آپ کے آپ کی تربیت میں زبان اور لفظ و معنیٰ کے اثرات بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیا آپ اپنی تربیت کی تفصیل اس خیال کے آئینے میں بیان کرنا پسند کریں گے؟
گوپی چند نارنگ : زبان و لفظ و معنیٰ میرے لیے اس لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں کہ میں اردو کا اہلِ زبان نہیں تھا۔ اسی احتساس کی دین ہے کہ اردو زبان کے رموز و نکات میری سوچ کا حصہ رہے ہیں اور زبان پر قدرت حاصل کرنے میں اگرچہ مجھے ریاضت تو کرنا پڑی لیکن زیادہ وقت نہیں لگا۔ میری طبیعت میں ایک مضمر جمالیاتی حس ہے جو کارگر رہتی ہے اور بہت سے فیصلے اپنے آپ کرتی ہے۔ اردو کا جادو مجھ پر شروع سے چلنے لگا تھا جو شاید اسی داخلی جمالیاتی حس کی وجہ سے تھا۔ اردو کے بھید بھرے سنگیت کو سمجھنے کی کوشش کرنا بھی شاید اسی اندرونی تجسس کا حصہ رہا ہوگا۔ بہرحال اس تجسس اور اضطراب سے میں نے بہت کچھ پایا جس کو میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ میری فکری بساط جیسی بھی ہے اس کی بدولت بلا خوفِ تردید آج بھی معروضی طور پر ثابت کرسکتا ہوں کہ برصغیر کی زبانیں سب اہم ہوں گی کوئی کسی سے ہیٹی نہیں لیکن اردو ہندوستان کی زبانوں کا تاج محل ہے۔
سوال : پروفیسر صاحب! اردو زبان سے عدم دلچسپی کے ہندی معاشرے میں ایک ہندو گھرانے کا اس اجنبی زبان و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنانے پر کس طرح کے ردِّعمل کا سامنا رہا ہوگا؟
گوپی چند نارنگ : جب میں ہندوستان آیا، میرے والد صاحب جو بلوچستان میں افسر خزانہ تھے، انھوں نے اپنے احباب کے اصرار پر پاکستان ریونیو سروس کا انتخاب کر لیا تھا، میں دسویں کی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی بھیجا گیا۔ والد صاحب 9 برس کے بعد 1956 میں ریٹائرمنٹ کے بعد ہندوستان آئے۔ ان کی عظیم شخصیت کا مجھ پر ایک احسان یہ بھی ہے اگرچہ وہ چاہتے تھے اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کی وجہ سے میں سائنس پڑھوں لیکن انھوں نے کبھی اصرار نہیں کیا۔ انھوں نے میرے معاملات میں مجھ کو آزادی برتنے دی۔ اردو وہ خود لکھتے پڑھتے تھے۔ خط کتابت بھی اردو میں کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہندو گھرانوں میں اردو سے مغائرت نہیں تھی۔ آج بھی ہندوستان میں ہزاروں لاکھوں ایسے ہندو ہیں جو اردو سے محبت کرتے ہیں لیکن بٹوارے کے بعد لسانی ترجیحات وہ نہیں رہیں جو اس سے پہلے تھی۔
سوال : کیا یہ تاثر درست ہے کہ علم و ہنر جس قدر وسعت اختیار کرتا ہے جذبات و احساسات اسی قدر سمٹتے جاتے ہیں یعنی انسان اس صورت میں زیادہ state forwardہوجاتا ہے!
گوپی چند نارنگ : علم و ہنر جس قدر وسعت اختیار کرتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ جذبات و احساسات
اُسی قدر سمٹتے جائیں۔ البتہ تسکین اور اظہار کے ذرائع اور طور طریقے بدل سکتے ہیں۔
سوال : آپ ذوق شوق سے لکھی ہوئی تقریر ڈائس پر آکر پڑھنے کے بجائے فلبدیہہ تقریر بہت عمدہ کرتے ہیں۔ اس کی خاص وجہ ہے؟
گوپی چند نارنگ : اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ اول تو یہ کہ فضلِ ربی ہے کہ قدرت کی طرف سے مجھے یہ ملکہ حاصل ہوا ہے کہ میں بولتے وقت سوچ بھی سکتا ہوں۔ گویا زبان و ذہن دونوں کے بیک وقت کام کرنے سے مجھے کوئی الجھن نہیں ہوتی۔ دوسرے یہ کہ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے سے سوچنے کی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔ زبان فعّال رہتی ہے ذہن اتنا کارگر نہیں رہتا اور سامعین سے تو وہ رشتہ ہرگز نہیں بنتا جو ’از دل خیزد و بر دل ریزد‘ کی کیفیت پیدا کردے۔ بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ عملی، تنقیدی و تحقیقی سفر میں دس بارہ ہزار صفحات سے زیادہ میں نے لکھا ہوگا، میرا لکھنا پڑھنا سوچنا (برا بھلا جیسا بھی ہے) بولتے ہوئے میرے ذہن میں مستحضر رہتا ہے۔ تقریر تو کیا، بس میں سامعین سے ہم کلام ہونے اور دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سوال : ایک رات آپ کے دولت کدہ پر ’’اردو‘‘ والوں کی دھماچوکڑی سے پولیس کی آمد پر آپ کے اہلِ خانہ اور پاس پڑوس کا ردِّعمل کیا تھا۔ یہ صورت حال اردو والوں کا خاصہ ہے یا دیگر زبانوں کے ادیب بھی شامل حال ہیں؟
گوپی چند نارنگ : اب اتنے برس ہوگئے، شاید پاس پڑوس سے کسی نے فون کیا ہوگا۔ یہ فقط اردو والوں
کا خاصہ نہیں۔ اہلِ فکر کی کچھ دوسری ضرورتیں بھی ہوتی ہیں۔ آپ نے علامہ کا فتویٰ تو سنا ہوگا :
لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دی
سوال : آپ کے مزاج کی انقلاب آفرینی کس نظریہ، تحریک یا جواز کی دین ہے؟
گوپی چند نارنگ : میں کسی ایک نظریے یا تحریک کا پابند نہیں۔ یہ میرے باطنی تجسس کے خلاف ہے۔
غالب نے کہا تھا :
رشک ہے آسائشِ اربابِ غفلت پر اسد
پیچ و تابِ دل نصیبِ خاطرِ آگاہ ہے
اس کو پیچ و تابِ دل کی دین سمجھئے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ادب بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے۔ ٹھہری ہوئی فکر ادب
کے جدلیاتی تحرک کے خلاف ہے۔ یہ مشورہ آپ کی نظر میں ہوگا :
ہر کس کہ شد صاحب نظر
دینِ بزرگاں خوش نکرد
ضروری نہیں کہ ہر شخص صاحبِ نظر ہو، تاہم ’’ز شرر ستارہ جویم، ز ستارہ آفتابے‘‘ پر عمل کرنا اگر فطرت کا تقاضا بن
جائے تو اس پر عمل کرنے میں حرج بھی نہیں۔
سوال : پروفیسر صاحب! تنقید نگار کے ہاں تخلیقی وصف کتنے فیصد ہونا ضروری ہے۔ مثلاً آپ کی شعری تنقید میں سخن فہمی کا بڑا ذکر ہے۔ نثری تنقید میں کون سی بصیرت درکار ہوا کرتی ہے؟
گوپی چند نارنگ : دراصل تنقید و تخلیق کے خانے اتنے الگ الگ نہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں۔ اچھی تنقید
تخلیقی احساس کے بغیر ممکن نہیں، اسی طرح تخلیق وجود میں آتی ہی کسی نہ کسی تنقیدی تصور کے تحت ہے۔ کوئی غزل گو ہے تو غزل کے معاملات کی آگہی یا کوئی فکشن نگار ہے تو فکشن کے معاملات کی آگہی خواہ اس کو شعوری احساس ہو یا لاشعوری، ضروری ہے۔ پہلی منزل صاحبِ ذوق ہونا ہے جس میں طبیعت اور مزاج کو بھی دخل ہوتا ہے۔ نیز مطالعے اور تربیت کو بھی، سخن فہمی کی منزل بعد میں آتی ہے۔ یہ نہ ہو تو تنقید گھاس کھودنے کا عمل ہے۔ سخن فہمی سے مراد ’ادب فہمی‘ بھی تو ہے یہ جتنی شاعری پر تنقید کے لیے ضروری ہے اتنی نثری ادب پر تنقید کے لیے ضروری ہے۔
سوال : ماضی میں لکھی جانے والی تنقید کو آج کی تنقید سے کس طرح موازنہ کریں گے اور اس میں پائی جانے والی یک طرفی کو مستقبل میں کیا عنوان دیا جائے گا؟
گوپی چند نارنگ : اُجالے کا وجود اندھیرے اور اندھیرے کا اجالے سے ہے۔ اچھی تنقید کی معنویت کے لیے بُری تنقید کا وجود ضروری ہے۔ میں آپ نہ بھی چاہیں تو ایسی تنقید پہلے بھی لکھی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہے گی۔ غالب نے جب کہا تھا ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘ تو سخن فہمی چونکہ ذوق و ظرف کی بات ہے اس میں طرفداری تو رہے گی۔ طرفداری اگر برحق ہے اور مدلل ہے تو نامناسب نہیں۔ ایک فن پارہ اعلیٰ ہے میں اس کو پسند کرتا ہوں۔ لیکن جس کو ناپسند ہے اس کے نزدیک میری پسند طرفداری ہے۔ لیکن اگر میری بات مدلل ہے اور میں نے ثبوت پیش کیا ہے تو وہ طرفداری نہیں سمجھی جائے گی۔ تنقید کا عمل بنیادی طور پر موضوعی عمل ہے۔ البتہ ماضی میں لکھی جانے والی تنقید، کیونکہ تنقید کم اور تنقیض یا قصیدہ زیادہ تھی اس لیے تنقید کے دائرے سے خارج ہے۔ تنقید نہ ہجو ہے نہ قصیدہ نگاری۔ تنقید فن پارے کے حسن کو اُجالتی ہے اور اس کی روح تک رسائی حاصل کرتی ہے۔
سوال : اسلوبیاتی تنقید کا نمائندہ گرداننے والے آپ کا دائرہ اثر محدود نہیں کررہے!
گوپی چند نارنگ : ہاں، یہ تو صحیح ہے اسلوبیاتی تنقید میرے جملہ تنقیدی عمل کی فقط ایک سطح ہے لیکن میں
کسی کو منع بھی تو نہیں کرسکتا۔
سوال :ہندستانی قصوں سے ماخوذ مثنویوں کا خیال کیونکر آیا اور اس سے اردو ادب کے قاری کو کیا فوائد حاصل ہوئے؟
گوپی چند نارنگ : ’ہندستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ میرے اس بڑے کام کا حصہ ہے جس کا ڈول میں نے 1954 میں دہلی یونیورسٹی سے ایم․اے․اردو کرنے کے بعد ڈالا تھا۔ میری ڈاکٹریٹ کا موضوع ’اردو شاعری کا تہذیبی مطالعہ‘ تھا۔ مثنوی والا کام میرے پی ایچ․ڈی․کے تھیسس کا فقط ایک Chapterتھا 50-55 صفحے کا۔ اس سے بہت دلچسپ نتائج سامنے آئے اور میں دو تین سال مزید اس پر کام کرتا رہا۔ یوں وہ کتاب 1961 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔ جس سے ثابت ہوا کہ اردو کی جڑیں ہماری ملی جلی تہذیب میں دور دور تک پیوست ہیں۔ مثلاً اردو میں فقط یوسف زلیخا، لیلیٰ مجنوں و شیریں فرہاد ہی نہیں، ہیر رانجھا، سسّی پنوں، سوہنی مہیوال و مرزا صاحبان بھی ہیں۔ اسی طرح شکنتلا اور کامروپ و کلاکام بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری شاہکار مثنویاں سحرالبیان اور گلزار نسیم ہندو مسلم ربط و ارتباط کا لاجواب مرقع ہے۔ میں نے دنیا بھر کے کتب خانوں اور عجائب گھروں میں ان قصے کہانیوں کی جڑوں کو تلاش کیا۔ سنسکرت و فارسی کے نسخوں کا پتہ بھی چلایا اور اردو کے منظوم و نثری نسخوں کی بھی نشاندہی کی۔ اور قلمی نسخوں کی بھی جو ہنوز غیرمطبوعہ ہیں۔ ادھر یہ کتاب بعد از نظرثانی 2001 میں قومی اردو کونسل سے مزید اضافوں کے ساتھ تقریباً چار سو صفحوں پر مشتمل شائع ہوگئی ہے۔ اب تہذیبی مطالعے کا یہ پروجیکٹ تین مبسوط کتابوں پر مبنی ہے۔ یعنی پہلی جلد اردو مثنوی پر، دوسری اردو غزل پر اور تیسری نظم و دیگر جملہ اصناف کا احاطہ کرتی ہے۔ دوسری کتاب کا نام ’اردو غزل اور ہندستانی ذہن و تہذیب‘ ہے جو 2002 میں منظرِعام پر آئی۔ تیسری کتاب کا عنوان ’تحریک آزادی اور اردو شاعری‘ ہے جو زیراشاعت ہے۔ یہ تینوں کتابیں مل کر پندرہ سو صفحوں کو محیط ہیں۔
سوال : آپ کے فرماں کے مطابق بول چال کی زبان میں شاعری نہیں ہوسکتی جبکہ شاعری کی زبان میں بول چال ہوسکتی ہے۔ کیا آج کی شاعری بول چال سے اوپر کی سطح کی شاعری ہے؟
گوپی چند نارنگ : شاعر شاعر میں فرق ہوتا ہے۔ میں نے یہ بات میر کی زبان کے پس منظر میں عرض کی تھی جن کو ہرچندکہ گفتگو عوام سے تھی لیکن شعر ان کے خواص پسند بھی ہیں۔ اعلیٰ شاعری میں سادہ نظر آنے والی زبان دراصل سادہ نہیں ہوتی۔ اس میں معنی تہہ در تہہ ہوتے ہیں۔ اس کو نبھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ لیکن شاعری تخلیق کا حق اسی وقت ادا کرسکتی ہے جب عام زبان زندہ رہنے والی زبان بن جائے، یعنی بول چال کی زبان میں معنی آفرینی اور حسن کاری کا وہ عنصر شامل ہوجائے جس کا جادو دلوں پر چل سکے۔ آج کی شاعری میں اچھی یا بُری ہر طرح کی شاعری ہے۔ اچھی کم بُری زیادہ۔ جہاں جہاں معنی آفرینی ہے وہاں زندہ رہنے کا امکان ہے۔
سوال : آپ کے فرمان کے مطابق نوجوان تخلیق کاروں کو عالمی ادب کے کلاسیک کے ساتھ ہندی، بنگالی، مراٹھی، گجراتی اور ملیالم وغیرہ کے تراجم کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ یہ تراجم دستیاب کہاں سے ہوں گے؟
گوپی چند نارنگ : ہندی، بنگالی، مراٹھی، گجراتی، ملیالم وغیرہ کے شاہکاروں کے تراجم ساہتیہ اکادمی سے
بھی شائع ہوئے ہیں اور نیشنل بک ٹرسٹ سے بھی۔ یہ کتابیں کم داموں کی ہیں اور آسانی سے دستیاب ہیں۔
سوال : آپ کے خیال میں گذشتہ صدی میں اردو ادب کی کون سی صنف نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے۔ نیز غزل، نظم، افسانہ اور تنقید کے چار بڑے نام کون سے ہیں اور آج کل ان شعبوں میں لیڈنگ پوزیشن پر کون ہیں؟
گوپی چند نارنگ : ادب کھیل کا میدان نہیں کہ کس نے Centuryزیادہ بنائی ہیں یا کس نے زیادہ وکٹیں لی ہیں۔ ادب ایک جدلیاتی عمل ہے جس کا ارتقائی سفر برابر جاری رہتا ہے۔ نیز اگر ایک شخص کی نظرمیں Leading Positionپر فلاں فلاں نام ہیں تو کسی دوسرے شخص کی نظر میں دوسرے نام، پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا۔ غالب نے کہا تھا ’’شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘۔ ناموں کا انتخاب بھی رسوائی کا عمل ہے۔ بہرحال کچھ نام ہوتے ہیں جن پر سب کا نہیں تو زیادہ تر کا اتفاق ہوسکتا ہے۔ بیسویں صدی میں اردو ادب میں سب سے زیادہ ترقی افسانہ نگاری نے کی ہے۔ غزل بھی پیچھے نہیں۔ البتہ نظم کچھ پچھڑ گئی ہے۔ پچھلے تیس چالیس برسوں میں تنقید میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ میری نظر میں گذشتہ صدی میں فکشن کے چار پانچ بڑے ناموں میں پریم چند، منٹو، بیدی، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین ضرور شامل ہوں گے۔ شاعری میں فراق گورکھپوری، ن․م․راشد، میراجی، اخترالایمان اور ناصر کاظمی۔ اسی طرح تنقید میں احتشام حسین، آل احمد سرور، کلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری اور ڈاکٹر سید عبداللہ۔ باقی بڑے نام میرے معاصرین ہیں۔
سوال : کیا آپ بھی اردو زبان کو مسلمانوں سے منسوب کرتے ہیں؟
گوپی چند نارنگ : زبان کا مذہب نہیں ہوتا، زبان کا سماج ہوتا ہے۔ جو لوگ زبانوں کو ایک مذہب تک محدود کرتے ہیں وہ زبان کے ساتھ بے انصافی کرتے ہیں۔ زبان ایک جمہوری سماجی عمل ہے۔ جو جس زبان کو بولتا ہے زبان اس کی ہو جاتی ہے۔ زبان ہر اجارہ داری کے خلاف ہوتی ہے۔ اردو زبان کا تعلق نہ تو سامی خاندان سے ہے اور نہ ایرانی خاندان سے، اردو کا تعلق ہند آریائی خاندان سے ہے۔ اس کی بنیاد ایک پراکرت یعنی کھڑی بولی پر ہے۔ البتہ اس کی لفظیات کا امتیازی حصہ عربی فارسی سے آیا ہے تاہم اردو کے 70 فیصد الفاظ بقول مولف فرہنگ آصفیہ ہندی کے ہیں۔ اردو کو کئی صدیوں تک ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل جل کر سجایا سنوارا ہے۔ اس کا رسم الخط عربی فارسی سے ماخوذ ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس میں اسلامی عناصر کا رنگ چوکھا ہے۔ لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اردو ایک مخلوط زبان ہے۔ دنیا کی بڑی زبانیں خود کو کسی ایک مذہب پر بند نہیں کرتیں۔ اگر کوئی اردو زبان کو مسلمانوں تک محدود کرنا چاہے تو یہ اس کی آزادی ہے۔ لیکن یہ کوتاہ اندیشی بھی ہے جس سے زبان کا نقصان ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ گجراتی یا ملیالم یا کنڑ یا مراٹھی کا مذہب کیا ہے۔ تو اردو ہی پر یہ کرم کیوں؟ آسمان، خوشبو اور ہوا کی طرح زبان بھی سب کے لیے ہوتی ہے۔ زمین کا بٹوارہ ہوسکتا ہے زبان کا بٹوارہ ایک ایسی منطق ہے جو میری سمجھ میں نہیں آتی۔
سوال : قیام پاکستان نے اردو زبان و ادب اور برصغیر کی ثقافت پر کیا اثرات مرتب کیے؟
گوپی چند نارنگ : قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی قومی زندگی میں اردو زبان و ادب کو مرکزی جگہ ملی ہے جو مستحسن ہے۔ لیکن اسی نسبت سے ہندوستان میں اردو کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ بٹوارے سے پہلے اردو کا چلن پورے ہندوستان میں تھا۔ عوامی سطح پر اب بھی ہے۔ لیکن کوئی ریاست اردو کے نام پر نہیں، اس لیے کہ کسی بھی ریاست میں اردو والے اکثریت میں نہیں۔ سیاست کس طرح زبانوں کے مقدر پر اثرانداز ہوتی ہے اس کا دُکھ کوئی بیچاری اردو سے پوچھے۔ یہ اردو کی سخت جانی ہے کہ وہ حالات کو جھیل رہی ہے اور زندہ ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں تقسیم سے پہلے بھی اردو کا خوب خوب چلن تھا بھلے ہی لوگ بات چیت پنجابی میں کرتے تھے لیکن اخبار سب اردو میں پڑھتے تھے۔ خط و کتاب اور ضلعی انتظامیہ بھی اردو میں تھا۔ اس میں کچھ ترقی آئی ہے لیکن پاکستان میں ہنوز اردو کو سرکاری، دفتری، قومی زبان کا درجہ نہیں ملا جبکہ پورے ہندوستان میں اردو کے لیے مشکلات کا کھاتہ کھل گیا اور ملک گیر زبان ہوتے ہوئے بھی اردو رسم الخط میں اردو کا اثر و نفوذ وہ نہیں رہا جو 1947 سے پہلے تھا۔
سوال : مہاتما گاندھی کی نسبت بابائے اردو مولوی عبدالحق کے الزام کہ ’ان کی بے اعتنائی کے باعث ہندوستان میں اردو کو حکومتی سطح پر جائز مقام نہیں ملا‘ کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟
گوپی چند نارنگ : مہاتما گاندھی اور مولوی عبدالحق میں غلط فہمی کی جو مذموم خلیج پیدا کی گئی تھی یعنی الزام تراشی کس نے کی، گاندھی جی کے نام سے جھوٹ کس نے بولا اور کیوں بولا، ان سب حقائق سے حال ہی میں ڈاکٹر گیان چند جین نے دستاویزی شہادتوں کے ساتھ پردہ اٹھایا ہے جو عبرت انگیز ہے۔ اس نوع کی حرکتیں ہم خود اردو زبان کو نقصان پہچانے کے لیے کرتے رہے ہیں۔ اس کی تفصیل کئی رسائل میں چھپ چکی ہے۔ تکرار کی ضرورت نہیں۔ آپ جاننا چاہیں تو محترمی مشفق خواجہ سے تمام تفصیل حاصل کرسکتے ہیں۔ گیان چند جین کا مضمون، ہماری زبان میں چھپ چکا ہے۔ اس سے پہلے حیات اللہ انصاری نے بھی ان رازوں سے پردہ اٹھایا تھا کہ کچھ اپنوں ہی نے جھوٹ بول کر اور مولوی صاحب کو بھڑکا کر خلیج پیدا کی تھی۔
سوال : تو پھر آپ کے خیال میں ’’اردو‘‘ کو ہندوستان میں جائز مقام نہ ملنے کے اسباب کیا ہیں؟
گوپی چند نارنگ : آپ کے اس سوال کا جواب میں نے اوپر دے دیا ہے۔
سوال : ترقی پسندی، جدیدیت، کلاسکیت کے نعروں کی جڑیں کٹنے کے بعد تخلیق کار کو کس طرح کے عنوانات
سے مہمیز ملے جبکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے عین مطابق ایک ہی نظریہ، ایک ہی طاقت اور ذاتی مفاد ہر قیمت پر
رائج ہوچکا ہے!
گوپی چند نارنگ : جو لوگ ذاتی مفاد کے لیے لکھتے ہیں وہ سچا ادب تخلیق نہیں کرسکتے۔ جو لوگ نعروں کے تحت لکھتے ہیں یعنی نعروں کے بدل جانے کے بعد نئے نعروں کا انتظار کرتے ہیں وہ بھی اعلیٰ ادب تخلیق نہیں کرسکتے۔ ادب کے لیے اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو باطن کی آگ، آزادی کی تڑپ، انسانی قدروں کے احساس اور زبان پر قدرت کی۔ ادب نظریوں اور آئیڈیالوجی سے آگے جاتا ہے۔ ان چیزوں سے روشنی ملتی ہے لیکن یہ چیزیں جب سینے کا نور بن جاتی ہیں تب قدروں میں ڈھلتی ہیں۔ تخلیق ہرگز ہرگز میکانکی عمل نہیں ہے۔ ادب ایثار اور ریاضت ہے۔ یہ تنہائی کا ثمر ہے۔ جو لوگ ذاتی مفاد کے چکر میں پڑے رہتے ہیں وہ ادب کے دشمن ہیں۔
سوال : بقول آپ کے! ادبی قبولیت آہستہ روی سے ہوتی ہے۔ ایسا کیوں! ناقدین، تخلیق کار کی ہڈیوں کے گلنے کا انتظار کیوں کیا کرتے ہیں؟
گوپی چند نارنگ : آج کل کاتہ اور لے دوڑی کا رواج ہے۔ ادبی قبولیت اور فلم کی قبولیت میں فرق ہے۔ جو چیز جتنی جلدی مشہور ہوتی ہے وہ چیز اتنی جلدی فراموش بھی ہوجاتی ہے۔ سچے ادب کا رشتہ دوامیت سے ہے۔ فوری نتائج بزنس میں ہوتے ہیں۔ ادب بزنس نہیں ہے۔ ادب ذہنی تنہائی کا پھل ہے اس کے لیے ایثار اور تپسیہ چاہیے۔ جو اس کے لیے تیار نہیں اس کو چاہیے کوئی دوسرا کاروبار کرے۔
سوال : عالمی ادب پر گہری نظر کی روشنی میں یہ فرمائیے کہ کس زبان کے ادب نے آپ کو زیادہ متاثر کیا یا آپ کے خیال میں کس خطہ کا ادب زیادہ تہذیب یافتہ اور بامعنی ہے؟
گوپی چند نارنگ : باوجود اس کے کہ میں نے بہت سی زبانوں کے بہت سے شاہکار پڑھے ہیں لیکن جو
جمالیاتی حظ و لطف اپنے ادب میں ملتا ہے وہ کسی دوسرے ادب سے حاصل نہیں ہوتا۔ میری جڑوں میں پاکستانی بولیوں کے اثرات ہیں تو لامحالہ میرے تحت و شعور میں بابا فرید، بلھے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ اور اس نوع کی لوک روایتیں ہیں۔ اپنی زبان میں میں سب سے زیادہ جمالیاتی حظ میر تقی میر اور غالب سے پاتا ہوں۔
سوال : آپ کے ساختیات، پس ساختیات کے مباحث فیشن کے طور پر دنیا کی بڑی جامعات میں اختیار کیے جارہے ہیں۔ اوّل آپ کے خیال میں اس عمل کے کیا اثرات برآمد ہوں گے دوئم اس رجحان کی روشنی میں آپ کے لیے کام کے زاویے کیا رُخ اختیار کریں گے؟
گوپی چند نارنگ : اوّل تو یہ کہ ساختیات، پس ساختیات، مابعد جدیدیت کے مباحث فقط میرے نہیں ہیں۔ یہ ادبی تھیوری کی نئی فکر انگیز بصیرتوں کا حصہ ہیں جن پر دنیا بھر میں بحث مباحثہ جاری ہے۔ زبان، تہذیب، معنیات، ادبیات اور تو اور تاریخ کے پہلے سے چلے آرہے تصورات کی مختلف جہات پر ازسرِنو غور کیا جارہا ہے۔ میں ذہنوں کو ’پروگرام‘ کرنے یا ہدایت نامے جاری کرنے کے خلاف ہوں۔ میرا کام تازہ ہواؤں کے لیے دریچے کھولنا اور فکر کو مہمیز کرنا ہے۔ فکر کا کارواں کسی پڑاؤ پر رکتا نہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا فکر کا اگلا پڑاؤ کیا ہوگا۔ علم کی جستجو میں لگے رہنا اگر کارِ ثواب نہیں تو گناہ بھی نہیں۔ میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ جب کوئی نظریہ آخری نظریہ نہیں تو کسی نظریے سے میکانکی معاملہ کرنا یا اس کو فیشن کے طور پر اختیار کرنا بھی اصولاً غلط ہے۔ فکر کو سینے کا نور اور ذہن کی روشنی بن جانا چاہیے۔ سب سے بڑی شرط ذہن کی آزادی ہے جس کی وجہ سے ہم بنیادی مسائل سے آزادانہ تخلیقی معاملہ کرسکتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے مابعد جدیدیت ہر تقلیدی روش یعنی ’مقلدیت‘ کے خلاف ہے۔ علامہ اقبال نے یونہی نہیں کہا تھا ’’نہیں ہے میری نظر سوئے کوفہ و بغداد / کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘‘۔ جدیدیت بے اثر ہوچکی ہے، جن کو یہ بات اچھی نہیں لگتی وہ اس کو زندہ بھی تو نہیں کرسکتے۔ جب دنیا بھر میں نظریوں کا بطلان ہوچکا ہے تو بعض کرم فرما کیوں توقع کرتے ہیں کہ میں ان کی خوشی کے لیے جھوٹ بولوں۔
سوال : پروفیسر صاحب! اردو کے ادبا و شعرا کاغذ پر بڑے نظر آنے کے باوجود عملی زندگی میں اس سے مختلف کیوں ہوتے ہیں نیز دیگر زبانوں کے قلمکاروں کی کیفیت کیا ہے؟
گوپی چند نارنگ : شاعر کی عملی زندگی ضروری نہیں سو فیصد وہی ہو جو اس کی تخلیقی زندگی ہے۔ شیکسپیئر ایک عام آدمی کی طرح زندگی جیتا تھا۔ غالب جوا کھیلنے کی عمل میں دو مرتبہ ماخوذ ہوئے یا آئے دن لوگوں سے ادھار مانگتے تھے یا ڈومنی کو مار رکھنے کے دعویدار بھی تھے لیکن ان کی شاعری میں جو جہانِ معنی آباد نظر آتا ہے یا شیکسپیئر کے ڈراموں میں جو پوری کی پوری تہذیبوں کے کردار ہیں یا میر کے یہاں ایک پوری تاریخ ایک پورے یگ کا المیہ ہے اس کا محدود نوعیت کی عملی زندگی یا ان کی شخصی کمیوں و کوتاہیوں سے کیا تعلق ہے۔ بیشک چیزیں زندگی سے آتی ہیں، خارجی واقعات متاثر کرتے ہیں لیکن داخلی دنیا تصور و تخئیل و وجدان کی دنیا ہے، یہ معروضیت کی دنیا نہیں۔ باطن کے ذہنی پردے پر تخلیقی عمل کس پُراسراریت سے گزرتا ہے اور معنی کا چراغاں کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح سے تخئیلی فن پارہ وجود میں آتا ہے جو زندۂ جاوید ہوجاتا ہے۔ یہ سربستہ راز ہے جس سے کوئی پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ عملی زندگی ایک دن ختم ہوجاتی ہے شعر زندہ رہتا ہے، زماں اور مکاں دونوں پر فتح حاصل کرتا ہے۔ زندگی ہار کے مٹ جاتی ہے لفظ کا جادو بولتا ہے۔ غالب، شیکسپیئر یا میر کی عملی زندگی کب کی ختم ہوچکی لیکن وہ اپنی شاعری میں آج بھی زندہ ہیں۔ یہ زندگی حقیقی زندگی سے کہیں زیادہ بڑی اور کہیں زیادہ حقیقی ہے۔ یہ اندرون کی زائیدہ ہے۔
سوال : سنا ہے آپ دوستی اور دشمنی نبھانے میں بڑے مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں۔ اس سے آپ کے تنقیدی رویوں کی اثابت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
گوپی چند نارنگ : یہ کسی نے بربنائے قافیہ لکھ دیا ہے۔ میرا خمیر دوستی سے بنا ہے، دشمنی سے نہیں۔ میں نے فقط معاصر ادیبوں پر نہیں لکھا بلکہ زیادہ کلاسیکی ادیبوں، شاعروں پر لکھا ہے۔ ان باتوں میں دوستی دشمنی کہاں ہے۔ البتہ ایسی باتیں دیکھنے والوں کی اپنی نظر کا معاملہ ہے۔ سرسید احمد خاں نے کہا تھا خدا کا لاکھ شکر ہے اس نے ’محسود‘ بنایا ہے کسی کا ’حاسد‘ نہیں۔ اگر کچھ لوگ بربنائے حسد کرم فرماتے ہیں یا اپنی زبان خراب کرتے ہیں تو میں ایسی چیزیں کھول کر پڑھتا ہی نہیں۔ میرے پاس فضول وقت ہے ہی نہیں۔ میں اپنی راہ کیوں کھوٹی کروں۔ زندگی بہت چھوٹی ہے، بہتر ہے انسان تھوڑا بہت اپنا کام کرتا رہے۔
سوال : آپ کے بعد آپ کے گھر پریوار میں اردو کا مستقبل کیا ہے؟
گوپی چند نارنگ : مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ میری بیوی اور دونوں لڑکے ارون اور ترون اردو پڑھ سکتے ہیں۔ اب ایک کنیڈا میں ہے دوسرا نیویارک میں۔ ان کی اولادوں در اولادوں کی زبانیں مستقبل میں کیا ہوں گی میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اتنا یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اردو ایسی زبان ہے کہ اس کے دیوانے کہیں نہ کہیں پیدا ہوتے ہی رہیں گے۔
سوال : دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دیے جانے پر آپ کے احساسات کیا ہیں اور اس سے زبان کی ترقی کے امکانات کس قدر ہیں؟
گوپی چند نارنگ : کچھ فائدہ تو ہوگا ہی۔ اردو دہلی سے کبھی غائب نہیں ہوئی۔ دہلیِ قدیم کے ایک بڑے حصے میں اردو برابر بولی جاتی رہی۔ اردو کو ’دوسری زبان‘ کہنا مجھ کو اچھا نہیں لگتا۔ جو کل بیگم تھی وہ آج باندی ہوگئی، تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو! ہرچندکہ دلی سرکار کی مہربانی ہے کہ اس نے یہ قدم اٹھایا، لیکن ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ خدا کرے کہ دہلی کے اسکولوں میں اردو پوری طرح رائج ہوجائے۔ یہ کام ہوگیا تو باقی دروازے اردو زبان اپنے آپ کھول لے گی۔
سوال : ایک خیال یہ ہے کہ ہندوستان میں اردو کی مسلمانوں سے منسوبی اور پاکستان میں نمائشی لگاؤ اس زبان کے مستقبل کے لیے مضر رساں ہے۔ آپ ہر دو رجحان کی روشنی میں اس زبان سے وابستہ افراد کو کس طرح کے مشورے دینا پسند کریں گے؟
گوپی چند نارنگ : میں مشورے دینے کو اچھی بات نہیں سمجھتا۔ مشورے سیاستداں دیتے ہیں۔ افسوس ہے تیزی سے کمرشیل ہوتے ہوئے سماجوں میں سرکاریں بھی اور لوگ بھی زبان کی اہمیت کو بھول گئے ہیں، حالانکہ زبان تہذیب کی کلید ہے۔ زبان نہیں ہے تو آپ کا چہرہ نہیں ہے اور چہرہ نہیں ہے تو تہذیب نہیں ہے۔ اگر تہذیب نہیں ہے تو آپ صرف کھانے کمانے جینے اور مر جانے کے لیے جیتے ہیں۔ جس تہذیب سے میرا تعلق ہے اس میں اس طرح کا جینا نہ جینے کے برابر ہے۔ زبان تہذیب کا چہرہ تو ہے ہی، انسانیت، اقدار، اعتقاد اور مذہب کا چہرہ بھی ہے۔ زبان ہے تو تاریخ کا شعور ہے، زبان ہے تو خدا کا شعور ہے، زبان ہے تو نیک و بد کا شعور ہے۔ اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔ آج کل جو تشدد اور خون خرابہ ہے اس کے پیچھے زبان کے شعور کی کمی ہے۔ زبان دلوں میں اتر جائے تو اندر کا حجرہ روشن ہوجائے۔ زبان محبت کا دوسرا نام ہے۔ یہ جوڑتی ہے توڑتی نہیں۔ اگر دونوں جگہ اردو سے سچی محبت عام ہوجائے تو دونوں کے مسئلے حل ہوجائیں۔ کاش ایسا ہی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب کے دو رنگ ،دو زاویے
میری نگاہ میں ادیب،سائنس دانوں،فلسفیوں،اور میں ادب کو مذہب اور سائنس کی طرح الگ،آزاد
فنکاروں کے اس قافلے کا ایک مسافر ہے جو انسانیت اور با معنی سرگرمی سمجھتا ہوں۔مختلف طریق کار ہو نے
کے لئے ایک خوب سے خوب تر زندگی کی تلاش میں کے باوجودمذہب اور سائنس کی جستجو کا رُخ کائنات
سرگرداں رہتا ہے۔اور اس منزل کے حصول کے لیے کے عظیم تر اسرار کی جانب ہے اور ادب بھی میرے
عمر بھر ریاض کرتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ: نزدیک اسی کی جستجو سے عبارت ہے۔البتہ ادب کی
سائنس داں۔عقل اور منطق کا،فلاسفر۔۔وجدان کا جستجو کی نوعیت مجاز کے وسیلے سے جمالیاتی ہے۔
اور فن کار جمالیات کا راستہ اختیارکرتا ہے۔ان کے سو کسی ایک صنف کو اپنا خاص شعبہ سمجھنے کی بجائے
راستے چاہے جدا ہوں لیکن ان کی منزل ایک ہی ہوتی میں ادب کو اپنا شعبہ سمجھتا ہوں۔ہاں شاعری کو میں
ہے۔وہ سب انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل اپنی پہلی محبت مانتا ہوں۔
کی گتھیاں سلجھانے کوشش کرتے ہیں۔ ثریا شہاب کے حیدر قریشی سے لئے
ڈاکٹر خالد سہیل ہوئے ایک انٹرویو سے اقتباس
بحوالہ مضمون ’’ادب تخلیقی چشمے اور فردا کے خواب‘‘ مطبوعہ ادبی صفحہ ڈیلی جنگ لندن
مطبوعہ سہ ماہی ترکش کلکتہ اپریل تا جون ۲۰۰۴ء ۷؍نومبر ۱۹۹۶ء