فراز حامدی(جے پور)
آشاؤں کے تانے بانے بُنتے بُنتے تھک سا گیا ہوں
اِن نوکیلے کانٹوں کو چُنتے چُنتے تھک سا گیا ہوں
مجھ پر ہی سب بھار نہ ڈالو
تم بھی کوئی راہ نکالو
دنیا کی رُسوائی سے ڈر کر
یوں نہ چھپو پردے میں جا کر
ہم نے سچآ پیار کیا ہے
اتنا کہہ دو سامنے آ کر
اب تو اس دنیا کے طعنے سُنتے سُنتے تھک سا گیا ہوں
آشاؤں کے تانے بانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان پُشپوں کے ہار ہیں جھوٹے
اِس وینا کے تار ہیں جھوٹے
ہائے رے اس دل کی نادانی
کرنے چلا ہے بھینٹ جوانی
حُسن وفا ؤں سے خالی ہے
نردئی ہے ہر رُوپ کی رانی
اپنے ہاتھوں اپنے سر کو دُھنتے دُھنتے تھک سا گیا ہوں
آشاؤں کے تانے بانے