ترنم ریاض
خوف کے مارے
یہ کل کی بات ہے
جب اک ملائم ڈور رشتے کی
ہمارے درمیاں تھی
اُس جگہ پر آج
اُس کے قد سے بھی اونچی
اَنا اُس کی
کسی ناگن کی صورت
مار کنڈلی آن بیٹھی ہے
دو شاخی لپلپاتی جِیب اُس کی
زہر بھی ٹپکاتی رہتی ہے
اگر میں خوف کے مارے
وہاں سے بھاگنا چاہوں
تو پھر اس میں بُرا کیا ہے!