افضل عباس
میں اکثر سوچتا ہوں
اب پرندے ان درختوں پر نہیں آتے،نہیں گاتے
یہ پیڑ اب ہو گئے ویراں
کہ ان پیڑوں کے نیچے اب کوئی محفل نہیں لگتی
نہ چرواہا کوئی اس چھاؤں میں سستانے آتا ہے
نہ اب کوئی مسافر اس جگہ آرام کرتا ہے
پرندے جب بھی آتے تھے تو اک قربت سی پاتے تھے
گڈریوں اور رہ گیروں کے سستانے کی قربت میں
انہیں آرام ملتا تھا
مسافر ڈھولے گاتے تھے،پرندے چہچہاتے تھے
عجب آپس کا رشتہ تھا
مگر جب سے مسافر اور چرواہے نہیں آتے
پرندے بھی نہیں گاتے
پرندے رہ گئے تنہا
جہاں اُجڑے ہوئے پیڑوں پہ
اب چُپ کی حکومت ہے
مسافر ہوگئے رخصت
بہت ہی دور پردیسوں کی برفانی گپھاؤں میں
بڑی انجان راہوں میں
جہاں الفت نہیں ہوتی!