ناصر زیدی (راولپنڈی)
کل رات کو عجیب سی اک بے کلی رہی
اس کے تصورات میں جھپکی نہ آنکھ بھی
گنتا رہا ہزار کی گنتی میں اس کا نام
جیسے ازل سے ہو کوئی ناشاد و تشنہ کام
کیا شکل تھی بھلی سی جسے بھولتا نہیں
اے کاش اس کو دیکھ نہ پاؤں میں پھر کہیں
اک بار دیکھ لینے سے حالت تباہ ہے
اس پر نگاہ دوسری ڈالوں ، گناہ ہے
مرمر سے ہے تراشا ہوا وہ حسیں بدن
جچتا ہے اس کے جسم پہ ہر ایک پیرہن
مجھ کو غرض نہیں ہے، عذاب و ثواب سے
پڑھتا ہوں اس کو عشق کے تازہ نصاب سے
رانی ہے وہ خیال کی، سپنوں کی چاہ کی!
پھر کس لئے سبیل کوئی رسم و راہ کی