وزیر آغا
وہ آزاد کیسے ہوئی
صدا۔۔ جو خلا کی بجھی گونج میں
جذب ہونے کا اک سانحہ بن گئی تھی
بجھی گونج کے
گہرے گھاؤ کے اندر سے
آزاد کیسے ہوئی،کون جانے!
کیسے اُس نے
لرزتی ہوئی گونج کی ایک کترن کو
کشتی بنا کر
سفر میری جانب کیا
اور آواز کی نقرئی بوند بن کر
مِری ختم ہوتی سماعت
کے کشکول میں آگری
کون جانے!