خورشید طلبؔ(جھارکھنڈ)
ہو مبارک تجھے بہروپ، زمانے والا!
میں نہیں یار! تری بات میں آنے والا
لمس کی آگ میں جلتے ہیں تو کھلتے ہیں بدن!
جانتا ہے میری بانہوں میں سمانے والا
ماوراء ہیں حدِ امکاں سے مری پروازیں
میں نہیں وقت کی وسعت میں سمانے والا
خیمۂ جاں کی خموشی ہے ڈرانے والی
پھر یقینا کوئی طوفان ہے آنے والا
اَب میں چپ ہوں تو مجھے کیوں نہیں جھنجھوڑتا ہے
میری آواز سے آواز ملانے والا
دیر تک روتا ہے پیڑوں سے لپٹ کر ہر شام
پیڑ پر بیٹھے پرندوں کو اڑانے والا
رو رہا ہوں کہ طلبؔ بات ہے رونے والی
کوئی ملتا ہی نہیں ہنسنے ہنسانے والا