جی۔ڈی احمر(جھارکھنڈ)
اپنی قربت سے فروزاں مجھے پل پل کردے
میں تو صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کردے
میں تو صحرا کا بگولا بنا پھرتا ہوں ابھی
میں برس جاؤں کہیں پیا رکا بادل کردے
آکے بس جامری نس نس میں تو خوشبو کی طرح
میں مہک اٹھوں سراپا مجھے صندل کردے
شربت دید پلا اور مجھے ہوش میں لا
یہ اگر تجھ سے نہ ممکن ہو تو پاگل کردے
مجھ کو دنیا کی طلب ہے نہ جمال ہستی!
نرگسی پھول سی آنکھوں کا تو کاجل کردے
تیرا پروردہ ہوں تجھ سے ہی دعا کرتاہوں
دور دنیا سے مری درد کا جنگل کردے
التجا کرتا ہوں اُس ذات گراں قدر سے یہ
اب تو جیون کا سنہرا مرا ہر پل کردے
ہاتھ اٹھائے ہوئے مصروفِ دعا ہے احمرؔ
اس کی مایوس تمناؤں کو چنچل کردے