سلیم اختر فاروقی(کیرانہ)
خوشی تو یہ ہے کہ ظالم ترا گماں نہ رہا
مری بلا سے اگر میرا آشیاں نہ رہا
ثبوت ایسے مٹائے کوئی نشاں نہ رہا
حقیقتوں کاکتابوں میں بھی بیاں نہ رہا
سفر میں منزلِ مقصود کے لئے ہم سب
بھٹک رہے ہیں کوئی میرِ کارواں نہ رہا
ہزار گردشِ دوراں سے میں گزر آیا
کسی کے پیر سے مجھ کو غمِ جہاں نہ رہا
بجھایا آندھی نے اب کے عجب طریقے سے
کسی چراغ سے اٹھتا ہوا دھواں نہ رہا
جو ہم خیال تھے اخترؔ ہمیشہ ان میں سے
پڑا جو وقت کوئی میرا ہم زباں نہ رہا