عاکف غنی
روشنی کے لیے ہم تو جلتے رہے
دور مدھم ستارے دمکتے رہے
رک نہ پائے قدم بے خودی میں کبھی
راستے منزلوں کے بدلتے رہے
وقت کی بے رخی کے اشارے لئے
خواہشوں کے دئیے جلتے بجھتے رہے
میری آ واز کو گو دبایا گیا
دل کے ارماں لبوں پہ مچلتے رہے
دیدہ ور آپ کے حسن کو د یکھ کر
بِن پئے مے کدوں میں بہکتے رہے
گلشن زیست میں گو خزاں ہے ، مگر
آپ کی یاد کے گل مہکتے رہے
ترک الفت پہ عاکف غنیؔ آ خرش
بیٹھ کر دستِ افسوس ملتے رہے