امجد نبیل(دوحہ قطر)
حالِ دل ان کو سنانے میں مجھے دیر لگی
زخمِ دل اپنا دکھانے میں مجھے دیر لگی
میں نے تجھ سے ہی وفاوٗں کا ہے ناتا جوڑا
لب پر اس بات کو لانے میں مجھے دیر لگی
وہ جو مجبور تھے اپنی ہی انا کے ہاتھوں
ان کو آئینہ دکھانے میں مجھے دیر لگی
یہ ضروری نہیں الفت میں خطا میں ہی کروں
بس یہ احساس دلانے میں مجھے دیر لگی
ہجر میں ہم جو تڑپتے تو وہ آکر کہتی
بخش دینا زرا آنے میں مجھے دیر لگی
اتنی باندھی تھیں وفاؤں سے امیدیں کہ نبیلؔ
خاک میں ان کو ملانے میں مجھے دیر لگی