احمد کمال حشمی
ہر اک جھوٹے کو کوّا کاٹتا ہے
مگر سچے کو کتا کاٹتا ہے
نیا سادھو بہت دھونی رمائے
نیا ہر ایک جوتا کاٹتا ہے
مسیحا کی مسیحائی تو دیکھو
ہرا ہے زخم ، ٹانکا کاٹتا ہے
ستم کو روکئے تیغ و تبر سے
کہ لوہا ہی تو لوہا کاٹتا ہے
ستم گر کا یہ اندازِ ستم ہے
گلا میرا وہ آدھا کاٹتا ہے
بہت اچھّا مجھے لگتا ہے جگنو
کسی حد تک اندھیرا کاٹتا ہے
ترا ہنسنا کھِلائے پھول دل میں
ترا رونا کلیجہ کاٹتا ہے
بڑا وِدوان بننے کے جنوں میں
ہے جس ڈالی پہ بیٹھا کاٹتا ہے