احمد کمال حشمی(کانکنارا)
مرا ہر ایک سپنا ٹوٹتا ہے
عجب گھر ہے یہ بنتا ٹوٹتا ہے
زیادہ بوجھ دل پر ہو تو دل کیا
ترازو کا بھی پلڑا ٹوٹتا ہے
یہ نکتہ ذہن میں رکھو امیرو
امیری کا بھی نشّہ ٹوٹتا ہے
اگر ضربِ کلیم اللہ ہوگی
تو لکڑی سے بھی دریا ٹوٹتا ہے
اگر ہمّت پرندوں کی نہ ٹوٹے
تو پھر اک روز پنجڑہ ٹوٹتا ہے
نہ شکوہ کیجئے دل ٹوٹنے کا
کہ شیشہ تو ہمیشہ ٹوٹتا ہے
وہ دیکھو اس کی آنکھوں میں ہیں آنسو
وہ دیکھو اک ستارہ ٹوٹتا ہے
کمالؔ اس سے تعلق توڑ ڈالو
ہمیشہ جس کا وعدہ ٹوٹتا ہے