سرور عالم رازؔ(امریکا)
سرابِ زیست میں ہم ڈوبتے اُبھرتے رہے
خزاں گزیدہ ، اُمیدِ بہار کرتے رہے!
رہِ نجات، رہِ عشق سے نکلتی ہے
اِسی لئے ترے بندے بتوں پہ مرتے رہے!
کبھی گمان کی صورت، کبھی یقیں کی طرح
ہمارے خواب بگڑتے رہے سنورتے رہے!
کتابِ دہر پر بس اک نگاہ ڈالی تھی
ذرا سا قرض تھا، اک عمر اُسکو بھرتے رہے!
(ق)
اُمید کرتے رہے اور دل میں ڈرتے رہے
قفس نصیب تھے، دن اس طرح گزرتے رہے!
ابھی یہ رات ڈھلے گی ابھی سحر ہوگی
تمام عمر یہی انتظار کرتے رہے!
گناہگارِ ازل ہیں، پھر اور کیا کرتے؟
اُمید وارِ کرم ہیں ، گناہ کرتے رہے!
ذرا سی بات پر بے اختیار ہو سرور؟ؔ
کرو گے کیا جو یونہی حادثے گزرتے رہے؟