مشتاق احزنؔ(جھارکھنڈ)
مجھے وہ یوں بھی اکثر دیکھتا ہے
گماں ہوتا ہے محشر دیکھتا ہے
اٹھے تو پھر لہو میں تیر جائے
کہاں رشتوں کو خنجر دیکھتا ہے
کہ پیاسا جس طرح پانی کو دیکھے
مری جانب سمندر دیکھتا ہے
سبھی آگے ہیں اپنی حیثیت سے
یہاں کون اپنی چادر دیکھتا ہے
محافظ جانتی ہے جس کو دنیا
وہی لٹتا ہوا گھر دیکھتا ہے
سکوں اس وقت چھن جاتا ہے میرا
وہ جب نظریں جھکا کر دیکھتا ہے
بناؤں کانچ کاگھر کیسے احزنؔ
زمانہ بن کے پتھر دیکھتا ہے