اقبال حمید(پونہ)
زندگی گزری ہے اس طرح سفر کی صورت
اب ہمیں یاد نہیں اپنے ہی گھر کی صورت
اجنبی شہر میں کی جس نے مدد وہ انساں
ایسا تھا جیسے فرشتہ ہو بشر کی صورت
اور کیا اس سے زیادہ کریں تجھ سے امید
دے محبت کا صلہ دردِ جگر کی صورت
اُس نے دیکھا ہی نہیں اپنا ،پرایا کوئی
فیض تھا سب کو، بشر تھا وہ شجر کی صورت
اُن کی آنکھوں نے جو کی باتیں مِری آنکھوں سے
کس طرح پھیلی زمانے میں خبر کی صورت
اُن سے جب حل کوئی نکلا نہ سوالوں کا مِرے
بات کرتے ہیں اگر اور مگر کی صورت
نیند اقبالؔ ہوئی دور مِری آنکھوں سے
بس گئے جب سے نظر میں وہ نظر کی صورت