رئیس الدین رئیس
سکوتِ شہر میں اب ہاؤ ہو نہیں ہے تو کیا
سبھی ہیں دوست اگر اک عدو نہیں ہے تو کیا
میں اپنی مٹّی کو اشکوں سے تر تو رکھتا ہوں
نصیبِ تخمِ میں کوئی نمو نہیں ہے تو کیا
تراش کرتے ہوئے زخم انگلیاں کرلیں
مرا ہی چہرہ مرے ہو بہو نہیں ہے تو کیا
چہار سمت مری پتلیوں میں رہتا ہے
ہر اک قدم مرے ہمراہ تو نہیں ہے تو کیا
چمک گیا ترے خاکوں میں رنگ تومیرا
مری رگوں میں جو میرا لہو نہیں ہے تو کیا
تری اور اُس کی نظر ہمکلام ہے کہ نہیں
رئیسؔ اُس سے تری گفتگو نہیں ہے تو کیا