رئیس الدین رئیس(علی گڑھ)
صبحیں کیا دنیا کا عقدہ کھولیں گی
خود آنکھوں سے سُن لوں گا جب بولیں گی
میں جو شہرِ فکر میں اک شب جاگوں گا
راتیں بھی کچھ لمحے دن میں سو لیں گی
آئینے! پھولوں سے ہاتھ گرادیں گے
آنکھیں میری لیکن کرچیں رو لیں گی
ہو جائے جو ظاہر میری تشنہ لبی
زہر سبیلیں اپنے اندر گھولیں گی
منظر سے پس منظر ہو کر کیا ہوگا
کچھ آنکھیں ہی تھوڑی دیر کو رو لیں گی
تجھ کو رئیس احساس نہیں ہوتا لیکن
ٍـفکر کی گرہیں تیری غزلیں کھولیں گی