سہیل اختر
کہکشاں جیسی زمیں، بحر غزالوں جیسی
کیوں نہ ہو میری غزل ماہ جمالوں جیسی
رنگ اور نور کا سنگم ہے کہ تیرا چہرہ
مجھ کو یہ شکل ملی میرے خیالوں جیسی
تو نہ سمجھے تو الگ بات ہے ورنہ اے دوست
میری خاموشیٔ لب بھی ہے مقالوں جیسی
ایک دن میں خمِ کاکل سے نکل جاؤں گا
ایک دن تیری نظر ہو گی سوالو ں جیسی
اس کو پگھلائے گا کب تیری وفا کا سورج
یہ مری سوچ کہ ہے برف کے گالوں جیسی
کیسے طے ہو گا تری سمت یہ صدیوں کا سفر
ہر گھڑی ہجر کے صحرا میں ہے سالوں جیسی
پیش کرنے کے لئے منزل جاناں کے حضور
کوئی سوغات نہیں پاؤں کے چھالوں جیسی
کوئی تو آئے کرن چاند نگر سے اخترؔ
کوئی تو رات ملے مجھ کو اجالوں جیسی