سہیل اختر(بھاولپور)
گریباں چاک لوگوں کے بڑے لشکر نکلتے ہیں
ترے رخ کے پسِ منظر عجب منظر نکلتے ہیں
یہ کیسا آئینہ خانہ ہے تیری بزم رنگیں بھی
کہ اہلِ عقل بھی اس بزم سے ششدر نکلتے ہیں
ترے صہبا کدے کی عظمتیں ہوں کیا بیاں ہم سے
گدا بھی ہوں تو وہ بھی بن کے اسکندر نکلتے ہیں
ترے رخسارو لب کا خواب تو صدیوں پہ بھاری ہے
بڑی مشکل سے ہم اس خواب سے باہر نکلتے ہیں
تعصب نے رگوں میں اس طرح سے زہر کاری کی
کہ اب تو آستینوں سے فقط خنجر نکلتے ہیں
مقید ہو چکے ہو گنبدِ بے در میں تم لیکن
جو ٹکرانے کی ہمت ہو تو کتنے در نکلتے ہیں
وفا کی راہ میں کٹنے کی ہو جن میں تڑپ اخترؔ
ہزاروں میں فقط دو چار ایسے سر نکلتے ہیں