مناظر عاشق ہرگانوی
پھول کو،کلیوں کو غنچوں کو شکایت ہو گئی
فصل گل آئی کہ ہر پنچھی کو وحشت ہو گئی
درد کا احساس ،زخموں کی چبھن،غم کی پکار
ہر گھٹن دل میں چھپا لینے کی عادت ہو گئی
اب نہ منزل کی طلب ہے،اب نہ راہوں کی تلاش
دشمنی لمحوں سے،صدیوں سے عداوت ہو گئی
ہم نے تو تقدیر سے کچھ بھی نہیں مانگا مگر
جتنا چاہا دے دیا،جیسی مشیت ہو گئی
خواب میرے تھے درو دیوار تو میرے نہ تھے
تیرے تنہا کمرے کو کیوں میری چاہت ہو گئی
اب تو حیرانی سے ہم کو دیکھتا ہے آئینہ
مسخ صورت ہو گئی،تبدیل سیرت ہو گئی
رنگ گلشن دیکھ کر عاشق مجھے آیا خیال
دھوپ کو پھر برہنہ پیڑوں کی حاجت ہو گئی