صاؔدق باجوہ
تری آرزو نے شاید مجھے پھر سے ہے پکارا
کہیں دل مچل نہ جائے اسے تھام لو خدارا
اسی دل کے واسطے سے کبھی حالِ دل تو پوچھیں
یہ بگڑتا ہی رہا ہے اسے بارہا سنوارا
ہے بھنور میں کشتئیِ دل کہیں دور ہے کنارا
کہاں ناخدا کو ڈھو نڈیں اسے دو ذرا سہارا
تری دید کے لئے تو ، یہ ترس گئی ہیں آنکھیں
دمِ حشر دیکھ پائیں بھلا یہ کہاں گوارا
مرے آنسوؤں کی دیکھو،یہ جھڑی سی لگ گئی ہے
تری یاد میں بہے ہیں، مرا غم ہے آشکارا
مرے دل کے آئینے میں کبھی جھانک کر تو دیکھو
ترا نام ہی لکھا ہے تجھے ہر گھڑی پکارا
کہاں بانٹنے چلے ہو، غمِ دو جہان صادقؔ
ہے جہاں یہ پُردکھوں سے رہا دل غموں کا مارا