افضل عباس
ملا جب سے جاناں کا آغوش ہے
مجھے کب کسی بات کا ہوش ہے
یہ کس نے مجھے آج تنہا کیا؟
بتا ساجنا، کس کا یہ دوش ہے
مجھے ایک عرصہ گماں یہ رہا
مِری ہیرؔ تو خود فراموش ہے
حسینؑ آکے دیں گے لہو کی صدا
زمانہ تو مدت سے خاموش ہے
میں صحراؤں میں کب سے ہوں ریت بُرد
مرا کارواں خانہ بردوش ہے
تھلوں میں جسے تونے ڈھونڈا عبث
وہ قاتل تو برفوں میں روپوش ہے
گواہ اوسلو کے ہیں سب میکدے
کہ افضلؔ سدا سے بلا نوش ہے