ناصر زیدی (راولپنڈی)
تجھ سے ملوں گا پھر کبھی خواب و خیال بھی نہیں
چہرے پہ ان دنوں مگر، گرد ملال بھی نہیں
آئینۂ صفات میں ذات کا عکس کیا ملے؟
اس کی تلاش ہو کہاں، جس کی مثال بھی نہیں
تیرے ستم کی گفتگو، تیرے کرم کی جستجو
صبحِ فراق بھی نہیں، شامِ وصال بھی نہیں
مجھ کو طلب سے کیا ملا؟ دردِ سراب آگہی
میری نظر میں معتبر، شہرِ جمال بھی نہیں
وہ بھی تھے دن کہ آئینہ بن کے وہ سامنے رہے
یہ بھی ہے اب کہ فرصتِ پرسشِ حال بھی نہیں