پروفیسر آفاق صدیقی(کراچی)
رہبری کرنے چلے تھے اور یہ کیا کر دیا
آپ نے تو رہزنی کا بول بالا کر دیا
کتنا دلکش تھا سفر ہم نے یہ کیسا کر دیا
گمرہی نے جادہ و منزل کو رسوا کر دیا
حق پہنچتا ہے تمہیں تم نے جو چاہا کر دیا
کیا ہو اجو سیکڑوں کو بے سہار ا کر دیا
اب کہاں وہ عہد رفتہ کی چمن آرائیاں
تیرے غم نے تو ہمیں یادوں کا صحرا کردیا
میرا اس شہر نگاراں میں بھی جی لگتا نہیں
کیوں بھری دنیا میں تو نے مجھ کو تنہا کر دیا
کیا خبر تھی رائیگاں جائے گا اپنا بھی لہو
ہم تو سمجھے تھے چراغوں نے اجالا کر دیا
خیر ہو آفاقؔ اس گھر کے درودیوار کی
جس کے رکھوالوں نے ہی گھر کا صفایا کر دیا