عتیق احمد عتیق
اُگا کے زیر قدم، آسمان کی خوشبو
پروں کو نوچ رہی ہے اڑان کی خوشبو
ترے بغیر، ترے گیان دھیان کی خوشبو
نواحِ دشت میں جیسے اذان کی خوشبو
جو لے اُڑی تھی مجھے، اک نشان کی خوشبو
تھی ہفت خواں سے پرے اُس جہان کی خوشبو
نواز کر مجھے دھوپوں کا بے شجر صحرا
بہت اُداس رہی، سائبان کی خوشبو
طرف طرف تھے، کراں تاکراں تھے ویرانے
تو کس دشا سے پھر آتی مکان کی خوشبو
چلو زمین سے پھر رابطے کادم بھرلیں
پھر آئی کشتِ فلک سے لگان کی خوشبو
مرے چڑھاؤ کی، شاید وہ کوئی وادی تھی
ہمک رہی تھی جہاں سے ڈھلان کی خوشبو
اُسے نہ بھائی، کسی بھی زباں کی شادابی
جسے بھی جچ گئی، اردو زبان کی خوشبو
کھلا گئی ہے عتیقؔ اپنے پیرہن کے گلاب
مرے بدن پہ، مرے خاندان کی خوشبو