عتیق احمد عتیق(مالے گاؤں)
مرے وجود پہ جب تک رہا اجارہ مرا
بہت عروج پہ تھا، اُن دنوں ستارہ مرا
ہوا جو ساغرِ اُمید، پارہ پارہ مرا
تو بوئے مے پہ ہی مختص رہا گزارہ مرا
کنارے لگ کے بھی، کیوں رَو میں ہے شکارہ مرا
پلٹ نہ جائے کہیں، زندگی کا دھارامرا
سمجھ رہا تھا جسے، سود مند اپنے لئے
وہ کاروبار رہا، وجہِ صد خسارہ مرا
بچا کے حلقۂ گرداب سے سفینوں کو
خود اپنی موج میں ڈوبا رہاکنارہ مرا
سمجھ سکا نہ اُسے، کوئی بوالہوس اب تک
اصولِ عشق کی جانب جو تھا اشارہ مرا
سجھاؤں گا، مرے دم سے ہے کیوں فروغِ جمال
تری گلی میں جو آنا ہوا دوبارہ مرا
جو سارے پہلو ہیں جذبات کے مہین ترین
انہی کی شرح تو ہے، حرفِ استعارہ مرا
سفیدی آگئی بالوں میں، باوجود اِس کے
عتیقؔ اب بھی ادھورا ہے گوشوارہ مرا