اس شمارہ میں کچھ انتظامی اور مشاورتی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں گی۔بعض دوستوں کا خیال تھا کہ مجلس مشاورت تشکیل دی جائے۔اس تجویز پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔توقع ہے کہ ایسی تبدیلیاں جدید ادب کے لئے بہتر ثابت ہوں گی۔ہماری مجلس مشاورت رسمی نوعیت کی نہیں ہو گی بلکہ معزز اراکین کا ایک موثر کردار ہو گا۔
اس شمارہ میں بعض متحارب لیکن اچھے معیاری ادیب دوستوں کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ان سب کو ایک ساتھ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غلط فہمیوں کے باعث یا کسی بھی سبب سے جو تلخیاں پیدا ہوئی ہیں ان کو کسی حد تک دور کیا جا سکے۔ ادارہ جدید ادب کی کوشش رہے گی کہ ایک طرف اچھا اور معیاری لکھنے والوں میں باہمی رنجشیں کم کی جا سکیں ،دوسرے ان کے درمیان اگر خوشگوار تعلق قائم نہیں ہو پاتا،تب بھی ایک ورکنگ ریلیشن شپ ضرور قائم ہو جائے۔یہ صلح کا رویہ چند مخصوص شخصیات تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ اس کے دائرۂ کار کو مزید بڑھایا جائے گا ۔
تمام اوریجنل لکھنے والے چاہے کسی گروہ،نظریہ یا حلقہ سے تعلق رکھتے ہوں،وہ سب قابلِ احترام ہیں ۔لیکن عملاََ ایسا تب ہی ہو سکے گا جب احترام کا عمل دو طرفہ طور پر دکھائی دینے لگے۔جھگڑوں اور رنجشوں کا اندھیرا دور کرنے کے لیے ہم اپنے حصہ کا چراغ جلائے رکھیں گے۔
ادیبوں کے معاملہ کے بعد اب ایک علمی مسئلہ۔۔۔ رولاں بارت نے ادیبوں کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ Ecrivant اور Ecrivain۔ایکری وانت ایسے ادیب جو محرر اور منشی ٹائپ کے ہیں اور ایکری وین جو حقیقتاَ تخلیقی لوگ ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ جہاں لکھنے والوں کی دو واضح قسمیں بیان ہو چکی ہیں(اور یہ بالکل بجا ہیں)اسی طرح کیا قاری کی اقسام کا نشان زد کیا جانا بھی ضروری ہوجاتا ہے یا نہیں؟قاری کی ادب فہمی،ذہنی سطح،اور ادبی رجحانات وغیرہ کس حد تک اس کے بحیثیت قاری ادبی مقام کے تعین میں شمار کئے جائیں گے؟
مابعد جدیدیت کے تحت قاری کو جو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اس کے پیشِ نظر اس سوال کی اہمیت ان تمام مابعد جدید ناقدین سے تفصیلی جواب کا تقاضا کرتی ہے جو اس ڈسپلن کے حامی ہیں۔ امید ہے وہ سارے مابعد جدید ناقدین جو اس سوال کی اہمیت کا احساس رکھتے ہیں اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ تمام آراء کا دلی طور پرخیر مقدم کیا جائے گا۔
حیدر قریشی