٭٭نیا سال مبارک! ’’جدید ادب‘‘کا تازہ شمارہ شاندار ہے۔گٹ اپ کے اعتبار ہی سے نہیں ،مندرجات کے حوالے سے بھی یہ شمارہ اعلیٰ ادبی معیار کا حامل ہے۔خوبی کی بات یہ ہے کہ اس پر کسی ایک ادبی حلقے کی چھاپ نظر نہیں آتی۔آپ نے تمام مکاتبِ فکر کے ادباء کی پروجیکشن کی ہے۔یہ بہت اچھی بات ہے۔’’دیکھ دھنک پھیل گئی ‘‘پر تبصرہ خوب ہے اور نظم شناسی کی ایک عمدہ مثال! بس ذرا مختصر تھا۔احباب نے ایک آنکھ میچ کر اس کے اختصار کی تعریف کی۔بڑے ظالم لوگ ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔لاہور
٭٭(بنام نذرخلیق)برادرِ گرامی سلام و رحمت
’’جدید ادب‘‘ موصول ہوا۔یادآوری اور کر م فرمائی کا احسان مند ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ بیرون ملک چھپنے والے پرچوں میں ’’جدید ادب‘‘ہر اعتبار سے بہت مختلف اور نمایاں نظر آتا ہے۔ادارت صاف نظر آتی ہے۔مواد کے معیار اور تنوع نے ’’جدید ادب‘‘ کو بہت کم عرصے میں اردو دنیا کا ایک اچھا ادبی رسالہ بنا دیا ہے۔برادرم حیدر قریشی اور ان کے رفقائے کار ہماری داد و تحسین کے بجا طور پر مستحق ہیں۔اﷲ تعالیٰ توفیق ارزانی کرے۔
افتخار عارف چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد
٭٭ڈئیر حیدر قریشی صاحب
I am sorry for the delay in responding to your e-ms. I am on my computer today after about a weak or even more. All last days I was not well because of the fracture of my right hand. Besides some physical discomfort I have found quite inconvenient to deal with one hand, particularly with the left one! As doctor promised the plaster will be removed after a month, not before. So, I have to exercise my ulta hath’’واقعہ سخت اور جان عزیز‘‘ - otherwise I wont be able to do anything for quite a long time! Anyway, my computer with the help of a finger of the left hand can send you my hearty gratitude for your all e- mails.
I have looked through the fehrest of naya Jadeed adab. It is full of so interesting things!
آپ کا اداریہ،انتظار حسین کا خطاب،اور افتخارعارف پر شگفتہ الطاف کا مضمون اور کچھ شاعری پرنٹ آؤٹ کر چکی ہوں۔کل پرسوں پڑھوں گی۔جنوری میں اس شمارے کا انتظار کروں گی۔کتابی شکلیں ابھی تک مجھے آن لائن والی شکلوں سے بہتر لگتی ہیں۔ مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پرحیرت بھی ہے اور صد رشک بھی۔سمجھ میں نہیں آتا ہے آپ 24 گھنٹوں کو 4 8 گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں؟ ۔اگلی ملاقات ہو گی(انشاء اﷲ) تو آپ سے یہ منترسیکھنے کی کوشش کروں گی۔جہاں تک اگلے شمارے کے لئے میرے مضمون کی بات ہے توابھی کیا کہہ سکتی ہوں۔۔۔۔میرے دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹھیک سے جُڑ جائے اور کوئی بلائے ناگہانی نہ ہو تو آپ کے رسالے کے لئے لکھنا باعثِ شرف سمجھوں گی۔
ڈاکٹر لڈمیلا(ماسکو یونیورسٹی۔روس)
٭٭
خود یہ حیدرؔ بھی جدید اور ادب بھی ہے جدید
تبصرہ اس پہ اگر ہو گا تو کیا ہو گا مزید
’گفتگو‘ میں ہے نہاں ایک غضب کی تحریک
’جعلی شعرا‘ کے لیئے سچ ہے بہت ضربِ شدید
صفدر ہمدانی(لندن)
٭٭آپ کا جدید ادب پڑھا ،بہت خوب ہے۔ترنم ریاض صاحبہ کا ’ٹیڈی بیئر‘بہت پسند آیا۔ان کو ہماری طرف سے مبارکباد دیجئے گا۔آپ کے ماہئے ’’نمازِ عشق‘‘بہت پسند آئے۔اتنا اچھا اور خوبصورت ادبی میگزین نکالنے پر میری مبارکباد قبول فرمائیں۔ عثمانہ اختر جمال (امریکہ)
٭٭ 24.01.20041 4:21:0 9tabassumkashmiri@hotmail.com
Dear Haider,
Today I received the new issue of Jadeed Adab. I read most of the magazine just in one sitting,it keeps very fine readable material. I appriciate the afforts you are making at a place which is far away from the centres of Urdu literatue. I am deeply inspired by the short story of Munsha Yaad. The story is highly engaging,it's plot structure, build up of the theme and his craft while chiselling the character of mother is wonderful. Rashid Amjad's story is also very fine, he has created his own world of fiction which is unique and amazing. I saw the ghazals of my friend Nasir Zaidy after a long time his poetry refreshed me. I will send you my poems within few days.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭وعدہ تو یہ تھا کہ ’’جدید ادب‘‘کے لئے نظمیں ارسال کروں گا مگر فرصت نہ ملی کہ ان کو ایک نظر دوبارہ دیکھ سکتا۔میں غزل نہیں کہتا۔آج تک کبھی ایک غزل بھی کہیں نہیں چھپی مگر گزشتہ چند برس سے توکیو کی ایک یونیورسٹی میں ہر سال ایک اردو مشاعرہ ہوتا ہے اور مجھے صدر شعبہ کی دوستی کے ناطے شریک بھی ہونا پڑتا ہے۔اسی شرکت کے لیے اور مشاعرے کے روایتی لوازمات پورے کرنے کے لئے ہر سال دو تین غزلیں کہنے کی ضرورت آپڑتی ہے۔یہ غزلیں اسی ضرورت کا نتیجہ ہیں۔سوچا کہ ’’جدید ادب‘‘ کی نذر کر دوں۔نظم کے بعد ذائقہ بدلنے کے لیے غزل کہنے میں ایک ثقافتی لطف ضرور ملا ہے۔میں آپ کی سرگرمیوں کا مداح ہوں اور آپ کے زورِ قلم کے لیے دعا گو ہوں۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری (شعبہ اردو۔اوساکا یونیورسٹی۔جاپان)
٭٭ (بنام نذر خلیق)’’جدید ادب‘‘ کے تازہ ترین شمارے کی دو کاپیاں موصول ہوئیں ۔ یاد آوری کے لیے ممنون ہوں ۔ صورت و سیرت دونوں اعتبار سے شمارہ خوب ہے۔ آپ حضرات اردو کی جو خدمت کر رہے ہیں اسے اردو والے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ پروفیسر ظہورالدین۔(شعبہ اردو۔جموں یونیورسٹی۔کشمیر)
٭٭جدیدادب سے ہر دو طریقوں سے ملاقات ہوتی ہے۔( طبع شدہ اور انٹرنیٹ) پر دستیاب شماروں کے مطالعہ کرنے کے بعد میں ہمیشہ ارادہ کرتا ہوں کہ آپ کو خط لکھوں گا لیکن ہر بار دل کی بات قلم اور زبان پر لانے کی بجائے خاموشی اختیار کرنے کی عادت سی پڑ چکی ہے۔ اسے میری کوتاہی سمجھئے یا سستی ۔وقت کا بہانہ نہیں لگاؤں گا۔چونکہ وقت تو ہر انسان کے پاس 2 4گھنٹے ہی ہوتے ہیں۔اس حوالے سے میں آپ کا معترف ہوں کہ آپ حصول روزگار کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا کیلئے کافی وقت دے رہے ہیں۔قریشی بھائی ایک بات بتاؤ کیا جرمنی میں دن 24گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہی زندگی ہے۔ زندگی تو جذبوں کا نام ہے سانس لینے کا نہیں۔جذبے ہی انسان کو جوان اور بوڑھا کرتے ہیں۔میرے سفر کی یادیں ’’ پیغمبروں کی سر زمین ‘‘ پر جدید ادب نے جو تبصرہ کیا میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔آپ جدیدادب کو جس جدید طریقہ سے چلانے پر گامزن ہیں یہی وقت کی ضرورت ہے۔ ثابت قدم رہیں اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائیں گے۔محمود ہاشمی صاحب آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور سلام پیش کرتے۔ یعقوب نظامی۔(بریڈ فورڈ۔انگلینڈ)
٭٭جنوری۔ جون ۲۰۰۴ء کا ’’جدید ادب‘‘ ملا۔ ایسا لگتا ہے ’’ جدید ادب‘‘ کا تیسرا دور پہلے دونوں ادوار سے آگے نکل رہا ہے ۔ مضامین کا حصہ بے حد وقیع ہے اور آپ کے حسن انتخاب کا مظہر صبا اکبر آبادی صاحب کی حمدیں پڑھ کر لطف آ گیا ۔ افسانوں کے حصے میں منشا یاد اور رشید امجد کے نام ہی اس حصے کو بھاری بھرکم بنانے کے لیے کافی ہیں محمد عاصم بٹ اپنے آپ کو منوا رہے ہیں ۔ جواز جعفری کی غزلیں میں نے ہمیشہ شوق سے اور لطف لے کر پڑھی ہیں۔ غزل کے دونوں حصے مرقع ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا اس دور میں نظم کے لیے سرمایہ افتخار ہیں ۔ ’’ماہیا ‘‘ حیدر قریشی کی محنت اور ذہانت کے باعث اب ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ یہ ایک معرکہ ہے جو حیدر قریشی کی برسوں کی محنت اور لگن سے سر ہوا ہے ۔ اب یہ صنف پوری طر ح سا منے آ گئی ہے اور ہمارے دور میں حیدر قریشی سے منسوب ہوئی ہے۔ تبصرے سب کے سب اعلیٰ درجے کے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ’’جدید ادب‘‘ کا یہ شمارہ خوب سے خوب تر کا سفر ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ’’جدید ادب‘‘ پوری دنیا میں پڑھا جا رہا ہے ۔ خدا آپ کے حوصلوں کو بلند رکھے۔ آپ اور پروفیسر نذر خلیق مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اکبر حمیدی اسلام آباد
٭٭(بنام نذر خلیق)’’جدید ادب‘‘ نے مدت مدید کے بعد ساعت دید عطاکی تو قدیم یادوں کے دریچے کھل گئے ۔ روشنی اور خوشبو مل کر عود کرآئیں تو قلب و نظر معطر و منور ہو اٹھے ہیں اور پھر جب خوشبو یادوں کی اور روشنی جذبوں اور لفظوں کی ہو۔۔۔۔ تو روح کی سر شاری کے کیا ٹھکانے ۔۔۔۔ کبھی جب خان پور سے حیدر قریشی جدید ادب نکالتے تھے اس دور کی قلمی رفاقتیں یا دآئیں تو قلبی رابطوں کی باز یافت کا جذبہ مچل ا ٹھا۔ انہیں میرے محبت بھرے سلام بھیجئے گا اور یہ ’’ حاضری‘‘ ۔۔۔ محبتوں کے ساتھ۔ محمد فیروز شاہ۔میانوالی
٭٭جدید ادب کا شمارہ چند یوم قبل موصول ہوا۔از حد ممنون ہوں۔جرمنی سے جدید ادب جیسا جریدہ نکالنا؟میں آپ کی اردو عاشقی کی دل سے قدر کرتی ہوں۔یہ واقعی بڑے حوصلے اور جگر کاوی کی بات ہے،اس کارِ خیر کے لئے میری مبارکباد قبول فرمائیے۔جدید ادب کو ہر لحاظ سے معیاری پایا۔شعری حصے نے از حد متاثر کیا۔نثری حصہ بھی معیاری اور دلچسپ ہے ۔آپ خود ایک ادارہ سے کم نہیں۔ایک باذوق ادب نواز اور ۔۔۔۔شخصیت کے علاوہ آپ ایک باکمال شاعر بھی ہیں۔میں برسوں سے آپ کو پڑھتی آرہی ہوں۔آپ کی ہر تخلیق متاثر کرتی ہے۔اﷲ آپ کے قلم کو اور قوت عطا فرمائے(آمین) نسرین نقاش ۔سری نگر،کشمیر،انڈیا
٭٭’جدید ادب‘کا شمارہ عزیز دوست سنجئے گوڑبولے کے توسط سے ملا۔آپ کی ادبی خدمات کے بارے میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔میری طرف سے ہدیۂ تہنیت قبول فرمائیے۔جدید ادب کے لئے دعا گو ہوں! ایوب رازؔ(کویت)
٭٭ سہیل احمد صدیقی کے توسّط سے آپ کارسالہ موصول ہوا تاہم اپنی کچھ مصروفیات کی بنائپرفوری طور پر تحریری رابطہ نہ کرسکی۔رسالے کامطالعہ کیاپسندآیاسچ تو یہ ہے کہ اردو ادب کے حوالے سے جو بھی چراغ روشن ہوگااس کی کرنیں کسی نہ کسی گوشے کو ضرور منوّر کریں گی۔میں آپ کے لیے استقامت کی دعاکرتی ہوں اور تسلسل کے ساتھ اسکے اجراء کی خواہشمند ہوں۔ رخسانہ صبا(کراچی)
٭٭شروع سے آخر تک جدید ادب اپنا معیار برقرار رکھتا ہے۔اس کے افسانے ،مضامین نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار رکھا۔بہت ہی پسند آئے۔ مدیرانہ اعلیٰ کارکردگی کا توقع سے بھی زیادہ ثبوت دیاگیا۔آپ کی یہ ادبی مصروفیت و سرگرمی ادب سے آپ کی وابستگی کا اسارا ہے۔غزلیں،نظمیں،ماہیے تمام ہی اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں۔
سیما عابدی(امریکہ)
٭٭جدید ادب کا شمارہ نمبر ایک چند ماہ پہلے بھائی ناصر عباس نیر نے مطالعے کے لیے دیا۔گزشتہ ماہ جھنگ میں ان سے ملاقات ہوئی۔پہلا شمارہ ان کو واپس کیا تو دوسرا شمارہ انہوں نے نہ صرف مطالعے کے لئے دیا بلکہ افسانہ بھیجنے کی بھی تاکید کی۔
جدید ادب کی فہرست دیکھی تو افسانے میں سارے دوستوں کو موجود پایا۔ڈاکٹر رشید امجد کا افسانہ ’’ بے سفری ‘‘ پڑھا تو چونک اٹھا۔علامتی انداز میں ترسیل اور ابلاغ کا موجود رہنا رشید امجد کے فن کا خاصہ ہے۔ان کے علامتی افسانے میں بھی ابہام نہیں ہوتا۔ اور یہ خوبی ہمیں ہر علامتی افسانہ نگار کے ہاں نہیں ملتی ۔افسانہ منزل کے افسانہ نگار منشاء یاد کا افسانہ میں نے ’’ماں جی‘‘ میں نے ملتان پہنچ کر پڑھا۔اگلے روز مجھے میانوالی واپس آناتھا۔افسانے کی کرافٹ اتنے کمال کی تھی کہ میں گردوپیش سے کٹ کر رہ گیا۔اس عالمگیر موضوع پر ادب میں بے بہا خزینہ موجود ہے ۔ شعراء نے ماں کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے تو نثّار قلم کاروں نے نثر میں اپنے فن کی جو لانیاں دکھائی ہیں ۔’’ماں جی‘‘ایک Classic Piece of literary artہے۔منشاء یاد کے فنی سفر میں یہ ایک ایسا سنگِ میل ثابت ہو گا ۔جسے ہمیشہ بطورِریفرنس پیش کیا جائے گا۔افسانے کے اختتام پر میری آنکھوں سے ساون برسنے لگا۔ مجھے میری ماں یاد آئی اور میں ٹوٹ کے رویا۔میں نے اسی وقت منشاء یاد کو فون کیا ۔جدید ادب کے ریفرنس سے ان تک اپنے جذبات پہنچائے۔اس افسانے کا تجزیہ پورے مضمون کا متقاضی ہے۔۔۔حیدر قریشی صاحب ۔۔ میرا وعدہ رہامیں ’’ماں جی ‘‘ پر مضمون لکھ کر جدید ادب کو ہی بھجواؤں گا۔مشرف عالم ذوقی کا افسانہ لیبارٹری انسانی ضمیر کو جھنجوڑنے والا ایک ایسا تازیانہ ہے۔جس میں پوری نسلِ انسانی کا المیہ کْرلا رہا ہے۔میں اپنے دوست مشرف عالم ذوقی کو اتنا شاندار اور بھرپور افسانہ لکھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔مشتاق انجم کا ’’سسکتی روشنی کی فریاد ‘‘ ترنم ریاض کا ’’ٹیڈی بیر‘‘ اور محمد عاصم بٹ کا ’’ انتظار ‘‘ بہت پسند آئے۔اظہر ا لحق کا افسانہ ’’ کالی دھند‘‘ گو‘ انسانی بے حسی اور معاشرتی قدروں کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔کہیں ایک ادھورا پن ہے جو اس افسانے میں کھٹکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود افسانہ نگار نے جو محنت کی ہے اس کی داد دینا ضروری ہے۔مجموعی طور پر جریدے میں تمام اصنافِ سخن کا معیار اعلیٰ ہے۔جریدے کا ہر صفحہ مدیر کی قابلیت کی عکاسی کر رہا ہے۔
محمد حامد سراج(میانوالی)
٭٭ ’’جدید ادب‘‘بہ یک وقت کتابی صورت میں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے والا اردو کا ادبی جریدہ ہے جو www.jadeedadab.comپر پڑھا جاسکتاہے۔۔۔۔جدید ادب کا تازہ شمارہ گوناگوں خوبیوں کا حامل ہے۔ فرحت نواز شیخ کے دعائیہ ماہیے، امین خیال کے نعتیہ ماہیے اور بشریٰ رحمن، ترنم ریاض، عارف فرہاد، سجاد مرزا، نسرین نقاش، محمد ارباب بزمی، ارشد اقبال آرش، وسیم انجم، کرشن مہیشوری، گلشن کھنہ، مسعود احمد چودھری، ریحانہ سرور، انیتا مروندی، پروین غزل، نوشی جان اور ریحانہ احمد کے بے شمار خوب صورت ماہیے ’’جدید ادب‘‘ کا خاص گوشہ رکھتے ہیں۔
’’کتاب میلہ‘‘ کے عنوان کے تحت ریحانہ احمد نے مختلف اصناف سخن میں نکلنے والی کتابوں اور جرائد کا اجمالی رتعارف دے کر ان کتب اور رسائل کے پڑھنے کا اشتیاق پیدا کیا۔ جب کہ ناصر عباس نیئر کی کتاب ’’چراغ آفریدم‘‘ کا ساجدہ نواز نے، اور یعقوب شاہ عرشیں کے ’’آخری آنسو‘‘ کا محمدحمیدشاہد نے تفصیلی مطالعہ پیش کیاہے۔ سہیل احمد صدیقی (کراچی) نے عصمت علی پٹیل کی ’’تاریخ کھتری‘‘ کے حسن و قبیح پر کھل کر لکھا ہے۔ ان کے علاوہ خود مدیر حیدر قریشی نے ’’تمنا بے تاب‘‘ (رشید امجد) محمد احمد سبزواری فن اور شخصیت‘‘ (رضیہ حامد) اور ’’ہر اک طرف سے‘‘ (اکبر حمیدی) کی کتابوں پر تبصرے کرکے ان کتابو ں کا ایماندارانہ جائزہ لیاہے۔
مظہر امام کی آٹھ غزلیں شاہد ماہلی کی چھ غزلیں، سعادت سید کی پانچ غزلیں، خورشید اقبال کی چھ غزلیں، عارف فرہاد کی سات غزلیں گویا ان شاعروں کا مکمل تعارف ہیں۔ صلاح الدین پرویز کی نونظمیں، سعادت سعید کی پانچ نظمیں اور ڈاکٹر فراز حامدی کے دس گیت ان شاعروں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ان خاصی منظومات کے علاوہ نثری حصہ بھی کچھ کم نہیں۔
جانے کے بعد(جوگندرپال) ادبی تحقیق اور اس کے مسائل( پروفیسر شفیق احمد) ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی تنقید نگای(ناصر عباس نیئر) جدید افسانہ نگاری میں رشید امجد کا مقام ( ثمینہ اصغر علی) اور آخر میں سنجے گوڈبولے اور کرشن مہیشوری کا مشترکہ مضمون ’’اردو کا مستقبل‘‘ امکانات اور اندیشے‘‘ رسالے کی جان ہیں جس میں ان دونوں قلم کاروں نے اردو کے بیشتر اہم مسائل پر کھل کر اظہا رائے کیاہے۔ مثلاً یہ کہ اردو کے موجود رسم الخط کو بدلنے سے اردو مکمل طورپر مرجائے گی۔ رسمالخط کے بدلنے سے اس کا حلقہ وسیع ہونے کا خیال ایک غلط مفروضہ ہے۔ انہوں نے ترکی کی مثال دے کر کہا کہ آج ترکی ادب بے نام و نشان ہو کر رہ گیا ہے۔ اردو کو زندہ رکھنے کے لیے اردو اخبارات و رسائل کو خرید کر پڑھنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ گھوسٹ رائٹنگ ghost writingکی مخالفت ہونی چاہیے تاکہ اردو میں متشاعروں اور جعلی قلم کاروں کا سد باب ہو۔
حیدر قریشی نے اپنے ابتدائی ادبی زمانے کی کھٹی میٹھی یادیں بڑے دل نشین انداز میں بیان کی ہیں۔
ڈیلی منصف حیدرآباد میں چھپنے والے تبصرہ کا ایک اہم حصہ
رؤف خیر(حیدرآباد۔دکن)
٭٭(بنام نذر خلیق) عزیزم حیدر قریشی کو برسوں سے جانتا پہچانتا ہوں ‘واقعی ادب دوست انسان ہیں ۔اب ان کی ادبی شخصیت پر اور کیا لکھوں کہ لکھنے والوں نے ایک ضخیم کتاب میں بہت کچھ لکھ دیا ہے ۔فی الحال ’’جدید ادب ‘‘کا شمارہ نمبر۲میرے پیشِ نظر ہے اور سب سے پہلے ’گفتگو ‘پر کچھ گفتگو کرنا ہے جو حیدر قریشی کا تحریر کردہ اداریہ ہے ۔
جہاں تک جدید ادب کے بنیادی مزاج کا سوال ہے مجھے ذاتی طور پر مدیر محترم کے اس قولِ فصیل سے اختلاف کا حق ہے کہ یہ مزاج مستقل اور سینئر لکھنے والوں سے ہی متعین ہوتا ہے۔ارے صاحب !ہمارے نئے لکھنے والوں میں ایسے باشعور اور کثیر المطالعہ ادب تخلیق کرنے والے بھی ہیں جن کی نگارشات میں عصری آگہی و جدید حسّیت کے ساتھ ساتھ دیرینہ ادبی روایات اور اکابرین ادب سے کسبِ فیض کی صورتیں بھی ملتی ہیں اس لیے نئے لکھنے والوں کی قدر افزائی جدید ادب کا طرہ امتیاز ہونا چاہیئے ۔البتہ یہ احتیاط لازم ہے کہ فنی سقم سے پاک ہوں اور فکر و احساس میں موضوعی و معروضی خرد افروزی وادب آموزی کا سلیقہ ہو۔ادبی شعور کی کمی کا مسئلہ ، ادب کے قارئین کی صورت حال ،جعلی شاعروں اور ادیبوں کی کھیپ بے شک یہ مسائل حاضرہ اہم ہیں اور ان پر سنجیدگی سے غور و خوض کی ضرورت ہے ۔
میرا خیال ہے کہ ادبی شعور میں کمی نہیں ۔دنیائے ادب اب ادبی شعور کے لیے صرف کتابوں اور جریدوں پر اکتفا نہیں کرتی برقی ذرائع ابلاغ کا پھیلاؤ بھی کافی اثر انداز ہو رہا ہے ۔ادب کے قارئین میں واقعی پہلی جیسی لگن نہیں ۔اسے آپ سہل پسندی اور تن آسانی پر محمول کیجئے اور بات پھر برقی ذرائع کی بھر مار تک پہنچتی ہے ۔ذرا دیکھئے تو کتنے ٹی وی چینل ہیں جن کی دید و شنید کا سلسلہ روز وشب کی تخصیص کے بغیر جاری ہے ۔
اب رہا جعلی شاعروں اور ادیبوں کی کھیپ کا مسئلہ تو بھائی میرے!’’جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا‘‘۔ہمارے اس شہر قائد کراچی میں ایسے کئی دھن دولت اور اعلیٰ عہدوں والے ہیں جنکی بڑی خوبصورت خوبصورت کتابیں شائع ہوئی ہیں مگر کام کسی کا نام کسی کا۔نمبر ۲مال تو ادب کی منڈی میں بھی ہر دور اور ہر زمانے کا سودا رہا ہے بہر کیف آپ کے بقول ’’ادب کو اولیّت اور اہمیت دینا بے حد ضروری ہے‘‘۔
مضامین و مقالات میں ڈاکٹر جمیل جالبی ،خلیق الرحمٰن،ناصر عباس نیّر،شگفتہ الطاف،کرشن مہشوری اور نذر خلیق کی تحریریں متنوع موضوعات پر لائقِ مطالعہ ہیں خصوصاًنذرخلیق نے ’’اردو کی اہم ادبی ویب سائیٹس‘‘کی جو معلومات فراہم کی ہیں ان کو عصرِ رواں کی ترجیحی ضرورتوں میں شمار کرنا چاہئیے۔بہتر ہوگا کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔
انتظار حسین صاحب طرزادیب وانشاء پرداز ہیں ۔ہمارے افسانوی ادب میں ان کا بڑا نام ہے۔نصف صدی پہلے ہی ان کی تخلیقی انفرادیت کے ڈنکے بجنے لگے تھے۔عام فہم زبان میں ایسے زور دار فقرے لکھنا ہر قلمکار کے بس کاکام نہیں ’’ادیب کی شخصیت تو ماس میڈیا کے کام آسکتی ہے ادب ماس میڈیا کے کام کی چیز نہیں ‘‘۔غزلیں ،نظمیں اور ماہئیے پڑھے ‘خوشی ہوئی کہ ہماری شاعری کے دامن میں کیسے کیسے گہر ہائے آبدار کا اضافہ ہو رہا ہے ۔
افسانوں میں پہلا افسانہ رشید امجد کا ‘’’بے سفری‘‘ہر چند کہ عام فہم بیانیہ افسانوں سے خاصہ مختلف اور تجریدی وعلامتی ہے مگر اس کی ادبی اہمیت وافادیت ہمارے افسانے کی عالمی اٹھان کے لیے بہر طور قابل قدر قریب قریب چالیس برسوں سے ہمارے افسانوی ادب میں بڑے معرکے کے تخلیقی تجربات ہوتے رہے ہیں ۔رشید امجد کا نام ایک بڑے افسانہ نگار کے طور پر ابھرا ہے اور ان کا یہ افسانہ بھی عظمتِ فن کی دلیل ہے۔
منشاء یاد کا افسانہ ’ماں جی ‘دیکھتے ہی قدرت اللہ شہاب یاد آگئے تاہم یہ بھی بڑے منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں جن کے ڈرامے ٹی وی پر بھی دیکھتا رہا ہوں ۔سادگی میں پرکاری پیدا کرنے کا آرٹایسے ہی قلم کو آتا ہے۔
باقی تمام افسانے بھی اثر آفریں ہیں ۔خصوصی مطالعہ بھی لائقِ مطالعہ۔خصوصاًپچھلے ادارئیے پر ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا تبصرہ (جسے آپ اداریے پر ردِ عمل قرار دیتے ہیں )مختصر ہوتے ہوئے نہ صرف فکر انگیز بلکہ بصیرت خیز ہے۔بات کچھ یوں ہے مغربی افکار ونظریات کی اپنی ایک دنیا ہے اُدھر سو فیصد تعلیم یافتہ اور بیشتر صورتوں میں خوشحال وآزاد خیال لوگ ان کے سروں کی ٹوپیاں ہم اپنے سروں پر زبردستی منڈھنے کی سعیء لاحاصل کیوں کریں ہاں جو فکری و فنی جہتیں ہماری اپنی روایات کے تسلسل میں مثبت اجتہادی کردار ادا کرنے کے قابل ہوں بے شک ان کو ڈاکٹر صاحب کی طرح اپنائیں اور نقد ونظر کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد تخلیق وتنقید میں جذب کریں تو بہتر ہے۔محترم وزیر آغا نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اوراقِ ادب ہی کی چھان پھٹک میں بسر کیا ہے۔مجھے ان کی تمام باتیں اچھی لگیں ۔
ماہئیے پر مکالمہ پسند آیا ۔ہمیں اپنے دیس کی اصناف سخن کو حیاتِ نو دینے میں مسلسل پیش رفت کو اپنائے رہنا چاہیے۔بیت ‘کافی ‘دوہے‘وائی‘ٹپے‘ماہئیے اور گیت وغیرہ کی کلاسیکی بنت میں اب جدید کلاسیکی اور جدید حسیاتی رنگ وآہنگ پیدا کرنا عصری شعور وآگہی اور بقائے ادب کو تقویت دینے کے مصداق ہے ۔میرے پاس جدید ادب کی صرف ایک جلد ہوتی ہے جو کئی پڑھنے والوں کے کام آتی ہے ۔بہر کیف اس جریدے کے دنیائے ادب پر بڑے دور رس اثرات پڑ رہے ہیں اور پڑتے رہیں گے ۔
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکتا۔ پروفیسر آفاق صدیقیؔ،صدر نشیں سندھی ادبی بورڈ،کراچی
٭٭جدید ادب کا دوسرا شمارہ یہاں بھائی عمر صاحب سے ملا تھا۔اس شمارے کو ادبی حلقے نے بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا۔ پسند کیا۔۔۔۔اردو دنیا میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی اردو ادبی رسالہ ویب سائٹ پر معیاری مواد کے ساتھ موجود ہو،اور وہ عزت جدید ادب کو خدا کے فضل سے حاصل ہے۔پڑھنے والے آہست آہستہ واقف ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹرولی بجنوری (سابق معالج صدر جمہوریہ ہند۔دہلی)
٭٭ جدید ادب شمارہ نمبر ۲عزیزم نذر خلیق کے ذریعے موصول ہوا تھا ۔اپنی شعبہ جاتی مصروفیات اور تحقیقی کاموں کی نگرانی کی وجہ سے جدید ادب کا اس انداز سے تو مطالعہ نہیں کر پایا کہ جس طرح کرنا چاہئیے تھا تاہم جستہ جستہ دیکھا ہے ۔سب سے پہلے تو آپ کا لکھا ہوا اداریہ توجہ کا مرکز بنا ۔ آپ نے درست لکھا ہے کہ قاری سے زیادہ ادیبوں کی ادب سے عدم دلچسپی اور ادبی شعور کی کمی قابلِ توجہ ہے آج کا ادیب مطالعہ اور مشاہدے سے دور ہوتا جارہا ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے بھی اپنے انداز سے اس سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے یہ حقیقت ہے کہ ادب کو تخلیق کرنے والے جب ادب کی روح کی حقیقت سے ناآشنا ہوں گے تو پھر ایک عام قاری کا ادبی شعور اور ذوقِ مطالعہ کس طرح بڑھ سکتا ہے ۔
آپ جس لگن اور محنت سے جدید ادب کے ذریعے ادب کو فروغ دے رہے ہیں مجھے یقین ہے کہ اس کے مثبت اور غیر معمولی نتائج برآمد ہوں گے۔صبا اکبر آبادی کے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت بھی ایک اہم کامیابی ہے۔مضامین میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا مضمون (اچھا ادب کیا ہے)ایک اہم مضمون ہے کیوں کہ ڈاکٹر صاحب نے جس انداز سے اچھے ادب کی وضاحت کی ہے اس سے ادب کی ایک حقیقی صورت سامنے آتی ہے ۔غزلوں کا انتخاب تو اس لیے بھی جاندار ہے کہ آپ خود ایک شاعر ہیں افسانوں میں رشید امجد کا افسانہ بے سفری منشایاد کا ماں جی اور محمد عاصم بٹ کا انتظار ‘اہم افسانے ہیں ۔نظموں میں ڈاکٹر وزیر آغا ،پروفیسر آفاق صدیقی ،خورشید ناظر فرحت نواز،تابش کمال،شمسہ اختر کی نظمیں خصوصیت کا درجہ رکھتی ہیں ۔خصوصی مطالعے میں صبا اکبر آبادی کا کلام (تضمین غالب)مابعد جدیدیت (ادارئیے پر ردِعمل)اور ماہئیے پر مکالمہ اہمیت کے حامل ہیں ۔جدید ادب کے اس شمارے میں ماہئیے ،کتاب گھر میں کتابوں پر تبصرے تو قابلِ مطالعہ ہیں ہی تاہم تفصیلی مطالعے میں ڈاکٹر صدیق خاں شبلی کا مضمون (اپنا گریباں چاک)اس لیے بھی اہم ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹرجاوید اقبال کی کتاب پر ایک منفرد اور اچھوتے انداز سے روشنی ڈالی ہے ۔ آپ کا جدید ادب صوری اور معنوی اعتبار سے ایک منفرد ادبی جریدہ بن کر ابھرا ہے ۔پروفیسر نذرخلیق کے مسلسل اصرار کے باوجود جدید ادب کے آئندہ شمارے کے لیے اپنی کوئی چیز نہیں بھیج سکا اور اس کی وجہ میری مصروفیت ہے۔انشاء اللہ اس کے بعد کے شماروں کے لیے چیزیں بھیجتا رہوں گا۔ ڈاکٹرشفیق احمد صدرِ شعبہ اردو و اقبالیات۔اسلامیہ یونیورسٹی ‘بہاولپور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
www.urdudost.com
اردو کی واحد ویب سائٹ جس پر بیک وقت چار ادبی رسائل آن لائن پیش کئے جاتے ہیں۔
٭ماہنامہ کائنات(ادبی رسالہ)٭ماہنامہ اردو ورلڈ(خبرنامہ)
٭ سہ ماہی اردو ماہیا(ادبی رسالہ)٭ماہنامہ ادبی البم(تصویری رسالہ)
اور اب ماہنامہ کائنات انٹرنیٹ پر سابقہ شماروں کے ساتھ موجود ہونے کے ساتھ پرنٹ ایڈیشن بھی شائع
کرنے لگا ہے۔انٹرنیٹ میگزین کی تاریخ میں پہلا اردو ادبی رسالہ جو پرنٹ ایڈیشن شائع کر رہا ہے۔
پوسٹل اور ای میل رابطہ کے لئے : keqbal@eth.net
خورشید اقبال چیف ایڈیٹر ماہنامہ کائنات
Double Zed International, Stall No. 5, New Market,
P.O.: Jagatdal, Distt.: North 2 4parganas,
W. Bengal, INDIA, PIN: 743125
سہ ماہی توازن مالے گاؤں اشاعت کا ۷۵واں سال سہ ماہی اسباق پونہ
مدیر عتیق احمد عتیق ماہنامہ شاعر بمبئی ایڈیٹر نذیر فتح پوری
۴۵۴۔نیا پورہ مالے گاؤں مدیر افتخار امام صدیقی ۲۳۰؍بی؍۱۰۲۔ومان درشن
مہاراشٹر۔۴۲۳۲۰۳ پوسٹ بکس نمبر ۳۷۷۰۔ لوہ گاؤں روڈ۔پونہ۰۳۲ ۴۱۱
نیا ادبی رسالہ انتخاب گرگام پوسٹ آفس۔ دو ماہی گلبن لکھنؤ
مدیر علیم اﷲ حالی بمبئی۔۰۰۴ ۴۰۰ مدیر سید ظفر ہاشمی
وہائٹ ہاؤس کمپاؤنڈ ۔گیا۔ انڈیا حسن گارڈن کالونی،کامتا،لکھنؤ