تعارف نگار: ریحانہ احمد
کب صبح ملن ہو گی(ماہیے) اعزاز احمد آذر
اعزاز احمد آذر اردو اور پنجابی کے معروف شاعر اور ادیب ہیں۔ صحافت سے بھی منسلک ہیں۔زیر نظر مجموعہ’’کب صبح ملن ہو گی‘‘ ان کے ماہیوں پر مشتمل ہے۔چونکہ اعزاز احمد آذر اردو کے ساتھ پنجابی کے بھی شاعر ہیں،اسی لئے انہیں ماہیے کی تفہیم میں کوئی اجھن پیش نہیں آئی اور ان کے اردو ماہیے بھی اپنے ثقافتی بہاؤ میں از خود ہوتے چلے گئے ہیں۔کتاب کا پیش لفظ حیدر قریشی کا تحریر کردہ ہے۔اعزاز احمد آذر نے اپنے ماہیوں کا یہ مجموعہ اردو ماہیا کی اہم شخصیت امین خیال جی کے نام کیا ہے۔۱۴۴صفحات کی یہ کتاب گل پبلی کیشنز گوجرانوالہ نے عمدگی کے ساتھ شائع کی ہے۔ ٭٭٭
کسی حیران ساعت میں(نظمیں) فیصل ہاشمی
ناروے میں مقیم اردو کے نوجوان شاعر فیصل ہاشمی کی نظموں کا مجموعہ’’کسی حیران ساعت میں‘‘لاہور سے کاغذی پیرہن کے زیر اہتمام شائع ہو گیا ہے۔۵۴نظموں پر مشتمل ۸۸صفحات کی یہ دیدہ زیب کتاب فیصل ہاشمی نے اپنے مرحوم بھائی مسعود ہاشمی کے نام انتساب کی ہے ۔’’کسی حیران ساعت میں‘‘کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیر نے لکھا ہے اور فلیپ پر شاہد شیدائی کی رائے درج ہے۔فیصل ہاشمی کی ایک مختصر نظم سے ان کی نظم نگاری کے مزاج کا اندازہ کیا جا سکتا ہے: حادثہ زندگی چابیوں کا گچھا ہے؍جس میں خوشیوں کے نام کی چابی؍کھو گئی جب اسے اچھالا تھا
٭٭٭
چراغِ درد(شاعری) احسان سہگل
احسان سہگل ہالینڈ میں مقیم ہیں۔انہوں نے ایک عرصہ سے ایک ’’مسلم اقوام متحدہ‘‘ بھی قائم کر رکھی ہے۔ان کی شاعری کے پانچ مجموعے چھپ چکے ہیں اور ’’چراغِ درد‘‘ ان کا چھٹا مجموعہ ہے۔اس کے پیش لفظ میں انہوں نے ’’دو نئی بحروں کی ایجاد ‘‘ کے عنوان سے اپنی دو نئی بحریں بیان کی ہیں۔اور آخر میں نوٹ دیا ہے کہ بعد میں کسی ادیب نے بتایا ہے کہ ان بحروں کا ذکر بحرالفصاحت میں موجود ہے۔احسان سہگل اپنے انداز کے شاعر ہیں۔عروض و بحور پر ان کی استادانہ گرفت کمال کی ہے۔عروضی تجربات کرتے رہتے ہیں اور اس طرح اچھے بھلے لوگوں کو حیران کرتے رہتے ہیں۔یہ مجموعہ بھی ان کے مخصوص انداز کی غزلوں اور اشعار سے آراستہ ہے۔۸۰صفحات کا یہ مجموعہاردو کلچرل سوسائٹی۔دی ہیگ۔ہالینڈ نے اچھے طریقے سے شائع کیا ہے۔٭٭٭
میری گفتگو تجھ سے(غزلیں) مدحت الاختر
ڈاکٹر مدحت الاختر ایک عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں۔جدید غزل گو شعراء میں ان کا نام شمار ہوتا ہے۔’’میری گفتگو تجھ سے‘‘ان کا تازہ شعری مجموعہ ہے۔جس میں زیادہ تر غزلیں ہیں صرف آخر میں چند متفرق اشعار اور ایک سہرا شامل کیا گیا ہے۔کتاب کے شروع میں شمس الرحمن فاروقی اور شاہد کبیر کے مضامین بطور پیش لفظ شامل ہیں فلیپ پر محمد حفظ الرحمن کا تعارفی نوٹ درج کیا گیا ہے۔۱۶۰صفحات کا یہ بہت خوبصورت مجموعہ سید احمد نانتھ نے لائف ٹائمز پبلیکیشنز۔ناگپور کے زیر اہتمام شائع کیا ہے۔٭٭٭
وہی تازگی وہی روشنی(شاعری) اسرار زیدی
اسرار زیدی پاک ٹی ہاؤس کے حوالے سے اور اخبارِ جہاں میں لاہور کی ادبی سرگرمیوں کی اشاعت کے حوالے سے بخوبی جانے جاتے ہیں۔دھیمے مزاج کے انسان ہیں جسے ڈاکٹر تبسم کاشمیری ان کی درویشی قرار دیتے ہیں۔یہی رویہ ان کی شاعری کے مزاج میں شامل ہے جو بقول ڈاکٹر رشید امجد’’اسرار زیدی کے شعری مزاج میں ایک ٹھہراؤ ہے‘‘۔اسرار زیدی کے اس شعری مجموعہ میں حمد،نعت،نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔پیش لفظ ڈاکٹر رشید امجد کا تحریر کردہ ہے جبکہ فلیپ پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی رائے درج ہے۔۱۶۰صفحات کا یہ مجموعہ دستاویز مطبوعات لاہور نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔٭٭٭
فنون آشوب(طویل نظم) سعادت سعید
ڈاکٹر سعادت سعید کا تعلق ادب کی اس لہر سے ہے جسے ’’نئی لسانی تشکیلات‘‘والوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ان کی تنقید ہو یا نظمیں وہ یقینی طور پر اپنے مسلک کی عمدہ ترجمانی کرتے ہیں۔’’فنون آشوب‘‘ڈاکٹر سعادت سعید کی طویل نظم ہے۔اس میں انہوں نے فنونِ لطیفہ میں سے فن کی گرمی کے غائب ہوجانے کا المیہ بیان کیا ہے۔اپنی نظم کا طویل مقدمہ انہوں نے خود لکھا ہے۔اس کے بعد نظم کا پہلا باب ’’تعارف‘‘ پر مبنی ہے۔اس کے بعد ان چھ فنون کے حوالے سے الگ الگ ابواب میں انہوں نے اپنے دل کی باتیں کی ہیں۔’’سنگ تراشی‘‘۔’’مصوری‘‘۔’’خطاطی‘‘۔’’شاعری‘‘۔’’موسیقی‘‘اور’’رقص‘‘۔نظم میں ایک ہی بحر اختیار کی گئی ہے اور نظم کا بہاؤ متاثر کن ہے۔لفظوں کے استعمال میں ڈاکٹر سعادت سعید نے ’’نئی لسانی تشکیلات‘‘کے نعرے کو گویا پھر سے زندہ کردیا ہے۔۱۷۶صفحات پر مشتمل یہ طویل نظم ابلاغ پبلشرز،اردو بازار لاہور نے سادگی سے شائع کی ہے۔
٭٭٭
سات سمندر پار(سفر نامہ) علی احمد فاطمی
علی احمد فاطمی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں میں ایک اہم نام ہے۔ان کی کتاب’’سات سمندر پار‘‘ان کے دو سفرناموں کا مجموعہ ہے۔پہلا سفر کینیڈا کا ہے اور دوسرا سفر تاشقند کا۔ان سفرناموں میں نئے دیاروں کو حیرت سے دیکھنے کے ساتھ اپنے میزبانوں کی شکر گزاری کا احساس غالب ہے۔کینیڈا کے اقبال حیدر اور ان کے خاندان کا ذکر ایسے انداز سے ہوا ہے کہ اس فیملی سے ملنے کا شوق ہونے لگتا ہے۔۱۶۰صفحات کا یہ سفرنامہ ادارہ نیاسفراالہٰ آبادنے اہتمام سے شائع کیا ہے۔٭٭٭
شونار بنگلہ(سفر نامہ) قمر علی عباسی
قمر علی عباسی نہ خود سفرکرنے سے باز آتے ہیں نہ اپنے قارئین کو دَم لینے کی مہلت دیتے ہیں۔اب تک ان کے بائیس سفر نامے چھپ چکے ہیں۔’’شو ناربنگلہ‘‘ان کا تازہ سفر نامہ ہے۔پاکستانیوں کے لئے بنگلہ دیش کا سفر دل میں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی کئی لہروں کاسفر بن جاتا ہے۔قمر علی عباسی کو بھی ایسی ہی صورتحال درپیش رہی ۔شاید اسی لئے سفر نامہ کے آغاز سے پہلے ہی کتاب پر لکھی ہوئی ’’آیت کریمہ‘‘بجائے خود ایک اقرار بن جاتی ہے۔ انہوں نے بڑی فنی مہارت کے ساتھ نہ صرف جذبات کو قابو کئے رکھا بلکہ اپنی روایتی شگفتگی کو بھی برقرار رکھاہے۔۱۹۰صفحات کا یہ عمدہ سفر نامہ ویلکم بک پورٹ کراچی نے اپنے روایتی اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ان کا یہ سفر نامہ بھی ان کے قارئین میں مقبول رہے گا۔٭٭٭
جانشین داغؔ۔۔۔بھائی جان عاشق مرتب: سنجئے گوڑ بولے
راجستھان کے شہر ٹونک میں ایک شاعر ہوا کرتے تھے ’’بھائی جان عاشق‘‘۔آپ حضرت داغؔ کے شاگرد رہے۔سنجئے گوڑ بولے جنہیں نوادرات جمع کرنے کا شوق ہے ادبی دنیا میں بھی نوادرات جمع کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے بھائی جان عاشق کے بارے میں بہت ساری معلومات حاصل کیں،ان کا دستیاب کلام جمع کیا اور یہ کتاب مرتب کر دی۔ابتدائیہ سنجئے گوڑ بولے نے خود لکھا ہے جبکہ ایک طویل مضمون’’حضرت داغؔ دہلوی کے نورتنوں میں سے ایک رتن اور تلمیذ:عاشق ٹونکوی‘‘کے زیر عنوان سید منظورلحسن برکاتی نے لکھا ہے۔اس مضمون کو اس کتاب کا مقدمہ کہا جا سکات ہے۔آخر میں بھائی جان عاشق کا کلام یکجا کیا گیا ہے۔۸۸صفحات کی اس کتاب کو تکششیلا پبلی کیشنز پونہ نے شائع کیا ہے۔انتساب نذیر فتح پوری کے نام کیا گیا ہے جو راجستھان کے آج کے معروف شاعر ہیں اور اب پونہ میں مقیم ہیں۔٭٭٭
امینِ حزیںؔ شخص،شاعر اور استاد مرتب: نذیر فتح پوری
پونہ میں جن چند لوگوں نے اردو کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے ان میں امینِ حزیں ایک اہم نام ہے۔سہ ماہی اسباق پونہ کے مدیر اور معروف شاعر نذیر فتح پوری نے امینِ حزیں کے بارے میں یہ کتاب مرتب کرکے ان کی ادبی خدمات کاا عتراف کیا ہے۔ امینِ حزیں کی اردو خدمات کا سلسلہ استاد کی حیثیت سے لے کر صحافت اور ادب تک پھیلا ہوا ہے۔اس کتاب میں ان ساری خدمات کا اختصار کے ساتھ احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ادبی دنیا کے ڈاکٹر محبوب راہی،قاضی مشتاق احمد،حیدرقریشی،ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،ساحر شیوی،اسلم حنیف،نذیر فتح پوری اور دیگر کے تاثرات اور مضامین شامل ہیں جبکہ ان کے بہت سے جاننے والے علمی دوستوں اور شاگردوں کی ایک خاص تعداد نے ابھی اپنے پر خلوص خیالات کا اظہار کیا ہے۔۱۴۴صفحات کی یہ عمدہ کتاب اسباق پبلی کیسنز پونہ نے شائع کی ہے۔نذیر فتح پوری کی یہ کاوش لائقِ ستائش ہے۔