فراز حامدی(جے پور)
تجھ کو کچھ منظور ہے مجھ کو کچھ منظور
وقت تو اپنے ہاتھ سے لکھے ہے دستور
کیسی تیری آس ہے کیسی تیری پیاس
دوپہری میں بھی تجھے شبنم کا احساس
تو ٹھہرا معصوم دل تجھ کو کیا سمجھاؤں
پوچھنے والے میں تجھے کون سا دکھ بتلاؤں
آنکھوں سے ہونے لگیں آنکھیں جب دو چار
کشتی میں ہلچل ہوئی،چھوٹ گئے پتوار
گاؤں میں آنے لگے شہروں سے اخبار
پنگھٹ پر ہونے لگا پردیسی سے پیار
چہرے پر شرمندگی آنکھوں میں اک آس
تم کو بھی ہونے لگا اپنوں کا احساس
مجبوری اک وہم ہے مت لے اس کی آڑ
رفتہ رفتہ کھیت کو کھا جاتی ہے باڑ
کب تک تو رکھ پائے گی تن کو من سے دور
گوری تیری مانگ میں آ بھر دوں سیندور