شفیق مراد(جرمنی)
دوپہر کی دھوپ میں
پتھروں کے ڈھیر پر
کوہکن بیٹھا ہوا ہے،
دُور صحرا کی طرف
زندگی کے ساز پر
مجنوں محوِ رقص ہے
زندگی ہے اس کا نام!
رات کے پچھلے پہر
بادلوں کی اوٹ سے
چاند چھپ کے دیکھتا ہے
ایک بوسید ہ گلی میں
آرزوکا اک دیا
جل رہا تھا۔۔بجھ گیا
زندگی کا اختتام!