سریندر بھوٹانی زاہدؔ(پولینڈ)
وہ جودشتِ خواہش و خواب تھا
بے آب تھا
کوئی رہگزر ،نہ ہی سنگِ میل جہاں ملے
تو یہ دل کا قصہ بھی شاعری میں ہو تا بکے؟
بھلاکس سے کہتے یا پوچھتے جو محبتوں کے ہیں سلسلے
کسی داستانِ طلب میں آئے تھے جو گلے!
جو بچھڑ گیا کوئی خواب تھا
جو اجڑ گیا وہ سراب تھا
مرا خود شناسی کا سلسلہ بھی عذاب تھا
ابھی دشتِ عمر کی خامشی نے کہا مجھے
کبھی دل کے تہہ خانے میں بھی
جاتے ، مگر تم نہ گئے،بے سود خاموشی
کہیں اب روح کی گہرائی میں
چھپ کر بلاتی ہے
مگرمیں سوچتا ہوں اب
تجسس تو فقط وہم و گماں کا ایک صحرا ہے
تو اس صحرا میں آخر کیا کیا جائے؟