عارف فرہاد(راولپنڈی)
پہلے دن ہی
آپ اپنی پوشاک پہن کر
میں نے وقت کو مار دیا تھا
یہ ہی وجہ ہے
صدیوں کے اِس لمبے سفر میں
میں باطن اور تُو ظاہر تھا
تجھ کو تیرا اپنا ظاہر چاٹ گیا ہے
اور میں اندر کی آنکھوں سے
پیاس کے دریا پی کر پھیل گیا ہوں
دیکھ میں کتنا پھیل گیا ہوں
تیرا بوڑھا اور ادھُورا جسم مجھے اب کیا ڈھانپے گا
اب تو میرا اندر ظاہر ہونے لگا ہے
ہو سکتا ہے اب کے بار اندر کی آنکھیں
مجھ کے پی جائیں
اور پھر موج میں آکر یوں لہرائیں
ہم دونوں مٹ جائیں !
ا نا نیت