ناصر زیدی(اسلام آباد)
میں اُس سے ہر روز ہی ملتا
اُسے سامنے بٹھاتا
مسلسل تکتارہتا
وہ بھی بال بکھرائے
عجب نازو ادا سے
قیامتیں ڈھاتی رہتی
اور میں اندر سے ٹوٹتا بکھرتا رہتا
دِن یونہی لمحوں میں گزرتے گئے
مگر کب تک؟
مسافر کوایک روز جدا تو ہونا ہی تھا
اگلے روز روانگی سے پہلے
آدھی رات کوفون کیا تو
اُس کی خواہش تھی رُک جاؤں
کل پھر مل لیں
میں بھی ایسی ہی خواہش رکھتا تھا لیکن
آنکھ میں کاجل پھیلتے آخردیکھتا کیسے؟
بوجھل دل سے
بغیر ملے ‘بغیر بات کیے
بغیر الوداع کہے‘چلا آیا
اور اب یوں لگتا ہے جیسے
کوئی سنگین خطا کر کے آیا ہوں
جسم سلامت لے آیا ہوں
اپنا باقی سب کچھ وہیں پہ
اُس کے سیمیں قدموں میں
رکھ آیا ہوں -----!