آفاق صدیقی
چشمِ پر نم لیے
اس کی یادوں کے اصنامِ دلگیر کو
آج دیکھا ہے یوں لب کشا
غم کا زہر اب تازہ پیئے
بیتے لمحوں کی رنگیں دھنک چھوڑکر
فکر واحساس کا ـ’ابرِ نیساں ‘گیا
موجِ ہستی’صدف در صدف‘
ڈھونڈتی پھر رہی ہے اسے
کون اس سر پٹکتی ہوئی موج سے یہ کہے
دامنِ دید کی دسترس میں مَیں نہیں
تیرے دامن کا جو انمول موتی گم ہوگیا
چاک داماں کیے
سازِ دل کی قبائے جنوں
ایک خوابِ پریشاں کی تعبیر ہے
دم بخود ہوگیا ہے ’گریباں ‘کہ کیا ہوگیا
بھیگی پلکوں پہ جلتے ہوئے آنسوؤں کے دئیے
کہہ رہے ہیں شبِ تار سے
اس کے خونِ جگر سے جو فکر ونظر کو ملی
وہ نکھرتی ہوئی روشنی
اپنے سورج کے اس دکھ بھرے سوگ میں
آج پہنے ہے پیراہنِ تیرگی
۔۔۔۔
اے سکوتِ الم
کس اندھیرے کی آغوش میں سوگیا
اس گل اندام سورج کو کیا ہوگیا
شہرِ آذر بتا !
تیرا آذر کہاں کھوگیا