آفاق صدیقی(کراچی)
ہوا یہ چاہتی ہے
فوقیت حاصل ہو اس کو
آگ ،مٹی اور پانی پر
وہ جب چاہے جلادے یا بجھادے
آگ مٹھی میں رہے اس کی
وہ مٹی کو کبھی اوجِ فلک دے
کبھی فرشِ زمیں پر
اپنے پاؤں سے مسل دے
وہ پانی کو کبھی بادل کبھی بارش بنائے
یہ مٹی آگ پانی اور ہوا
سب اپنی اپنی فوقیت کی دھن میں رہتے ہیں
کبھی پانی کے چھینٹے
آگ پر قبضہ جماتے ہیں
کبھی مٹی کو اپنے ساتھ لہروں میں بہاتے ہیں
یہ مٹی جو بظاہر خاکساری کی علامت ہے
دہکتی آگ کے شعلوں کو اکثر داب لیتی ہے
جو سینہ تان لے
سیلاب کو بھی روک دیتی ہے
بپھر جائے تو یہ مٹی کبھی آندھی کبھی طوفاں
ذراسی ایک چنگاری
بھڑک اٹھے تو شعلہ ہے
یہ شعلہ
جب دہکتی آگ بن جائے
تو جو بھی سامنے ہو
اس کو خاکستر بنائے
مگر اس فوقیت کی حشر خیزی
عناصر ہی پہ کیا موقوف رکھنا
ہم انسانوں میں بھی
اس فوقیت کے روپ اور بہروپ
کتنے ہیں ؟