صادق باجوہ(امریکہ)
مری انا ہی مرے راستے کا پتھر ہے
اسی کے دامِ فسوں ساز میں پھنسا ہوں میں
یہ وجہِ کبر و غرو ر و تفاخرت بھی ہوئی
اسی سے پیدا دلوں میں مغایرت بھی ہوئی
اسی سے مہر و وفا کی کٹی ہیں زنجیریں
تمام الٹی اسی سے ہوئیں ہیں تدبیریں
اسی نے مجھ کو نکالا تھا عرشِ بالا سے
اسی نے راندۂِ درگہ بنا دیا تھا مجھے
حصارِ ذات میں محصور کردیا مجھ کو
خود اپنے آپ سے بھی دور کردیا مجھ کو
اسی کے دامِ فریب و مکر میں ہو کے اسیر
میں اپنی ذات کے نشّے میں چور ہوتا رہا
میں دور دور خلاؤں سے بھی ورے جاکر
مقامِ پیکرِ انساں سے دور ہوتا رہا
مرا وجود کہاں کھو گیا خبر ہی نہیں
انانے ٹکڑے جدا کر دئے اثر ہی نہیں