وزیر آغا
رات کے پچھلے پہر جب نیند
بیداری کو اپنے روبرُو پا کر
اُکھڑتے سانس لیتی ہے
سیاہی کے تسلسل کی طنابیں ٹوٹتی ،
درزوں کے لب دو نیم ہوتے ہیں
تو ان درزوں سے قیدی خواب
کیڑوں کی طرح باہر نکلتے ہیں
شکستہ،ریختہ
صدیوں پرانی خواہشوں کے
ہر طرف بکھرے
مغلّظ ، اشتہا انگیز ریزے
چنتے پھرتے ہیں!!