سیما عابدی(امریکہ)
الٹے سیدھے خواب ستانے لگتے ہیں
اور آنکھوں کی نیند اڑانے لگتے ہیں
شہر کے ہنگامے کرتے ہیں خوفزدہ
شہر کے سناٹے بھی ڈرانے لگتے ہیں
صورتِ حال ہراساں کرنے لگتی ہے
اپنے آپ سے ہی گھبرانے لگتے ہیں
روشنیاں نہ کم ہوں کبھی،بس اس ڈر سے
دھیرے دھیرے خود کو جلانے لگتے ہیں
اس کو واپس آنا ہے پر دیکھتے ہیں
کتنے مہینے، سال، زمانے لگتے ہیں
گھر کی فضا پژمردہ کہیں نہ ہوجائے
اپنا دکھ اپنے سے چھپانے لگتے ہیں
خوشیوں کا احساس فزوں تر ہوتا ہے
سیماؔ جب اس بزم میں جانے لگتے ہیں