سلیم اخترؔفاروقی(کیرانہ)
سمجھ رہا ہے یہ ساقی قضا سے ٹوٹ گئے
مگر وہ جام ہماری اَنا سے ٹوٹ گئے
قدم بڑھائیں تو کیسے بڑھائیں منزل تک
ہمارے پاؤں تو دشتِ جفا سے ٹوٹ گئے
جو پھول سحنِ گلستاں میں مسکرائے تھے
وہ پھول تیری انوکھی ادا سے ٹوٹ گئے
ملال بچوں کے چہروں سے یوں نمایاں ہے
کھولنے ان کی ذرا سی خطا سے ٹوٹ گئے
وہ جسے گہرا تعلق تھا اِک زمانے سے
ہم ان کے آج خلوص و وفا سے ٹوٹ گئے
کسی بھی دھارے نے شکوہ نہیں کیا کوئی
بہت سی موجوں کے دل ناخدا سے ٹوٹ گئے
رسولِ پاک نے مانگی خدا سے جو اخترؔ
غرور جن کو تھا وہ اس دُعا سے ٹوٹ گئے