ایوب راز(کویت)
کبھی نہ اس سے کہو کچھ ہوا کے لہجے میں
جو روز ملتا ہے تم سے دعا کے لہجے میں
چمن میں رونقِ فصلِ بہار ہے پھر بھی
غضب کا درد ہے اب کے صبا کے لہجے میں
میں زخم زخم ہوں مجھ کو بچائیے ورنہ
بلا کازہر بھرا ہے دوا کے لہجے میں
زمیں پہ اب بھی وہ احسان کر رہی ہے مگر
عجیب طنز ہے اب کے گھٹا کے لہجے میں
کبھی کبھی ہی سہی رازؔ دل کی بستی میں
اتر کے بات کرو تم وفا کے لہجے میں