ناہید ورک(امریکہ)
بکھرتے ہی گئے سب خواہشوں کے ساز، کیا کرتے
تری لَے اور تھی کچھ اور تھی آواز، کیا کرتے
کمالِ ضبط پر میرے بھلا وہ ناز کیا کرتے
ستانے آئے تھے مجھ کو وہ چارہ ساز، کیا کرتے
جنھوں نے چادروں کو پھاڑ کر سینے چُھپائے ہوں
وہ اپنی مُفلسی میں اور پس انداز کیا کرتے
ہماری خوشبوؤں کی جب دھنک بھی قید کر ڈالی
تو مجبوراً ہمیں کرنی پڑی پرواز، کیا کرتے
ضرورت تھی جنھیں تیری وفاؤں کے گھروندے کی
ترے وعدوں کی خالی سیپیوں پر ناز کیا کرتے
گئے تھے اُس کے در پرُمدّعا اپنا بیاں کرنے
’’جفاکاری سے پیش آیا وہ حیلہ ساز کیا کرتے‘‘
ہمارے غم کہاں ناہیدؔ دنیا پر عیاں ہوتے
مگر آنکھوں نے دل کے کہہ دیے سب راز، کیا کرتے؟