مرتضیٰ اشعر(ملتان)
کچھ اِس لئے بھی چاہیے سورج کی ضو مجھے
ملتے ہیں ہجر ، وصل کے زینے پہ سو مجھے
خاشاک کی طرح سے تھا میں تیرے ہاتھ میں
چاہا جدھر بھی لے گئی سو تیری رو مجھے
گندم کے کھیت پر تو وڈیرے کی آنکھ ہے
بونی پڑے گی صحن میں اِس بار جو مجھے
اِس شہر کی فصیل پہ شب ہے گڑی ہوئی
اِس تار میں تلاشنی ہے کوئی پو مجھے
چوپال کے الاؤ کی مانند مرتضیٰ
سُلگا رہی ہے ایک حکایت کی لو مجھے
مرتضیٰ اشعر
کسی نے پیڑ ہی کچھ اس طرح اُگائے تھے
وہاں پہ دھوپ دھری ہے جہاں پہ سائے تھے
پھر اُسکے بعد نَدی میں اُتر گیا تھا چاند
بس ایک بار ستارے سے جھلملائے تھے
نجانے گھاس کناروں کی کیوں نہیں چمکی
دیئے جلا کے تو ہم نے بہت بہائے تھے
لہولہان ہیں جن سے تمام شہر کے لوگ
کوئی بتائے یہ پتھر کہاں سے آئے تھے
ہوا نے چھین لئے اور اُڑا دیئے اشعرؔ
کہ ہم نے آنکھ سے جو نقشِ پا اُٹھائے تھے