انور مینائی(کولار)
جانے کس کا سایا ہے
آئینہ دھندلایا ہے
سب کچھ فانی ہے تو سوچ
کیا کھویا ،کیا پایا ہے
گاؤں کی جنت کہہ اس کو
بر گد کی جو چھایا ہے
منظر کیا ،پس منظر کیا
جیون جب اک مایا ہے
اب کے تو ساون نے بھی
للچایا ، ترسایا ہے
تجھ کو بھلانے کی خاطر
کس کس کو اپنایا ہے
روح سسکتی ہے جس میں
ایسی میری کایا ہے
انور مینائی
ہزاروں کی جھوٹی ستائش ملی
مجھے اپنی شہرت سے کاہش ملی
دشائیں بھیانک نظر آئیں جب
مجھے عین جنگل میں بارش ملی
یہ کیسی نوازش ہے لمحات کی
مجھے خود پہ مرنے کی خواہش ملی
ترے گیان سے اور تری ذات سے
مِری روح کو ایک تابش ملی
عجب رابطہ تھا یہ تم سے مِرا
نہ راحت ملی اور نہ رنجش ملی
بڑے سخت پہرے تھے جذبات پر
رواجوں کی ہر سمت بندش ملی
مخالف ہے کیا میرا شہرِ سخن
ہر اک ذہن میں تازہ سازش ملی