سعید شبابؔ(خان پور)
مانا کہ کوئی حال مرا پوچھتا نہیں
پھر بھی میں اس جہان میں بے آسرا نہیں
کس حال میں ہیں اور کہاں ہیں وہ ان دنوں
مدت ہوئی ہے اُن سے کوئی رابطہ نہیں
ہر چند ہیں سخی وہ ہمارے لیے مگر
کشکول آرزو کا ابھی تک بھرا نہیں
رہنا تم احتیاط سے، شہروں کی بھیڑ میں
ہوجائیں گُم تو کوئی یہاں ڈھونڈتا نہیں
ہر چند آندھیوں سے رہا سابقہ بہت
پھر بھی مرا چراغِ تمنا بُجھا نہیں
جس کی طلب نہ تھی وہ عطا اس نے کر دیا
ہم چاہتے تھے جو ہمیں حاصل ہوا نہیں
ہم لوگ ناسپاس مگر انتہا کے ہیں
اس کی عنایتوں کی کوئی انتہا نہیں
ہر شخص محترم ہے ہماری نگاہ میں
نَے دشمنی کسی سے، کسی سے گلہ نہیں
سیکھا ہے زندگی میں یہی ہم نے اک سبق
ہم ہیں برے شبابؔزمانہ برا نہیں