حفیظؔ شاہد(خان پور )
جانے کیا اُس نے مری خاکِ بدن میں رکھا
بے وطن جس نے مجھے اپنے وطن میں رکھا
جانے کیوں فصلِ بہاراں نے صبا کے ہاتھوں
گُل کی خوشبو کو پریشان چمن میں رکھا
مہرباں ہم پہ رہی گردشِ دوراں کیا کیا
ہم کو صحرا میں ،اسے سرووسمن میں رکھا
صرف پھولوں کو نہیں ریشمی پیکر بخشے
اس نے کانٹوں کو بھی خوشحال چمن میں رکھا
ہم نے دنیا کی روایاتِ کہن سے ہٹ کر
اک نیا رنگ یہاں اپنے چلن میں رکھا
وادیء عشق ومحبت سے نکلتے کیسے
اس نے ہر آن ہمیں اپنی لگن میں رکھا
کیا انوکھا یہ محبت کا سفر تھا جس نے
ہر مسافر کو مسافت کی تھکن میں رکھا
ہم نے حالات کی تلخی کو چھپا کر شاہدؔ
خود کو اوروں سے جدا شہرِ سخن میں رکھا