کلیم احسان بٹ(گجرات)
دل کے ٹوٹ جانے کا سانحہ نکل آیا
ہاتھ کی لکیرو ں سے زائچہ نکل آیا
وہ جہاں بسایا تھا شوق خود نما ئی نے
آئینے کے پیچھے بھی آئینہ نکل آیا
کس نے ذکر چھیڑا تھا اس کی سرد مہری کا
باد و برف زاروں کا سلسلہ نکل آیا
دائرے کے باہر بھی دائرے ہی لگتے ہیں
دائرے کے اندر بھی دائرہ نکل آیا
پھر مرے خیالوں میں پھوٹنے لگی سرسوں
پھر جنون و و حشت کا مسئلہ نکل آ یا
اس کی جھوٹی باتوں پر میں یقین کیوں کر لو ں؟
پھن ا ٹھائے بل سے پھر وسو سہ نکل آیا
میں ابھی سفر کی دھول گھر کو لے کے لوٹا تھا
پھر نئی مسافت کا راستہ نکل آیا