فیصل فارانی (ٹورونٹو)
سوچا ہے اپنے آپ کو اب کھوجنا بھی ہے
اپنا ہی راز خود پہ مجھے کھولنا بھی ہے
گویا یہ قفلِ آگہی اب توڑنا بھی ہے
یوں بے خودی کے در کو مجھے کھولنا بھی ہے
اِس آتشِ معاش کا اب سامنا ہے یوں
خود کو بچا کے رکھنا ہے اور جھونکنا بھی ہے
اک حرفِ معتبر کے ترازو میں ایک دن
ردّی کا اپنا ڈھیر مجھے تولنا بھی ہے
سازِ خیالِ یار کو اب چھیڑ کر مجھے
تنہائیوں میں وصل کا سُر گھولنا بھی ہے
یہ جانتا ہوں اِس کی پہونچ بھی نہیں وہاں
پھر بھی ہوا سے کچھ تو مجھے بولنا بھی ہے
اکثر تو بند رہنا ہے اپنے مکان میں
خود کو کسی گلی میں مگر رولنا بھی ہے
رکھنا ہے اپنے آپ کو فیصلؔ سنبھال کر
لیکن کہیں کہیں پہ مجھے ڈولنا بھی ہے