سہیل احمد صدیقی(کراچی)
یخ بستہ گرد باد میں سوچا ہے بار بار
تیرے بغیر زیست بھی ممکن ہے گل عذار؟
فصل بہار روٹھ کے گزری ہے بار بار
پژمردہ ذہن ‘ پیاس کا صحرا ہے شہرِ یار
ابرِ کرم برس بھی چکا‘ پھول بھی کھلے
موتی بر س چکیں تو ذرا دیکھ حسنِ یار
پیاسے کو جھیل پاس بھی آکر نہ کچھ ملا
ساقی ترا تو خود ہی رہا محو انتظار
تیرا جمال کاسنی پھولوں میں گم ہوا
تیرا نصیب دیکھ کے رویا ہوں زار زار